
ہو گیا اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔ کیا ہوا باجی؟ تو میں نے حسبِ معمول اس سے تھوڑی سختی سے کہا ۔۔۔ کیا ہونا ہے؟ میرے لہجے کی پھنکار سن کر وہ بے چارہ سہم گیا ۔۔۔اور مزید کوئی بات کیئے بغیر چارپائی سے اُٹھ کر خاموشی سے باہر چلا گیا۔۔۔ اسے باہر جاتے دیکھ کر میں کافی مایوس ہوئی اور اپنا سر پکڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔چونکہ اس وقت میرے جزبات عروج پر تھے اس لیئے اس مایوسی کی وجہ سے میرے سر میں درد ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔ لیکن میں نے اس درد کی پروہ نہ کی اور خاموشی سے بستر پر لیٹ گئی۔۔۔۔ اور چارپائی پر کروٹیں بدلتے ہوئے شبی کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔ اور پھر سوچتے سوچتے آخرِ کار میرے ذہن میں ایک ترکیب آ ہی گئی ۔اس ترکیب کا ذہن میں آنا تھا کہ میں چارپائی سے اُٹھ بیٹھی اور اس ترکیب کو فول پروف بنانے کے لیئے میں اس کے باقی جزیات پر بھی غور کرنے لگی۔۔۔ اور پھر ساری جزیات طے کرنے کے بعد جب میرے حساب سے جب یہ منصوبہ فائینل ہو گیا تو میں نے ایک دفعہ پھر اس پر غور کیا ۔۔۔ اور یہ سب طے کرنے کے بعد۔۔۔ میں خود کو ایک دم سے ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی حیرت انگیز طور پر میرے سر کا درد بھی غائب ہو گیا ۔ چنانچہ میں چارپائی سے اُٹھی اور کمرے سے باہر آ گئی۔۔ اب مجھے بڑی شدت سے رات ہونے کا انتظار تھا۔۔۔
ہر چند کہ وہ گرمیوں کے دن تھےاور جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ گرمیوں کے دنوں میں گاؤں اور قصبوں کے لوگ کھلے صحن یا چھت پر سونا پسند کرتے ہیں ۔۔ لیکن چونکہ ان دنوں ہمارے علاقے میں اچانک ہی چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ایک دم سے بہت اضافہ ہو گیا تھا اور یہ گروہ چوری اور ڈکیتی کے ساتھ ساتھ مزاحمت پر اکثر گھر والوں قتل کو بھی کر دیا کرتے تھے اس لیئے علاقہ بھر میں ان کی بڑی دہشت پھیل گئی تھی ۔۔ چنانچہ اسی ڈر کی وجہ سے انہی دنوں ہم لوگ باہر صحن یا چھت پر نہیں بلکہ کمروں کے اندر کنڈیاں وغیرہ لگا کر سویا کرتے تھے ۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ شام کو کھانا کھانے کے بعد حسبِ معمول میں اپنے کمرے کی طرف جانے لگی ۔۔۔تو پیچھے سے اماں نے روز کی طرح ایک بار پھر سختی سے تاکید کی کہ سوتے وقت دروازے کو کُنڈی لگا کر سونا ۔۔۔۔اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ میں تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی کہ جب میں بھائی کے ساتھ واردات ڈال رہی ہوں تو دروازہ لاک ہو۔۔۔اس لیئے میں نے اماں کی بات سن کر خاموشی سے سر ہلا دیا اور اپنے کمرے میں چلی آئی ۔(اور میں کمرے میں اس لیئے پہلے آتی تھی کہ روز مجھے چارپائی پر بستر درست کرنا اور اسے جھاڑنا وغیرہ ہوتا تھا )۔چنانچہ اس رات بھی چارپائی پر بستر وغیرہ جھاڑنے کے بعد میں ۔۔۔ شبی کا انتظار کرنے لگی۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد ۔۔۔ شبی بھی آ گیا ۔۔
۔ ویسے تو وہ روز ہی اسی ٹائم پر کمرے میں آیا کرتا تھا لیکن اس رات مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ بہت لیٹ آیا ہو ۔۔۔ یہ شبی کی پکی روٹین تھی کہ وہ کمرے میں داخل ہو کر پہلے میرے ساتھ روز مرہ کی گپ شپ کرتا اور پھر کچھ دیر بعد میرے ساتھ ہی چارپائی پر سو جایا کرتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں آج شبی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ۔۔۔ مجھے خواہ مخواہ ہی انگڑائیاں کیوں آنے لگیں تھیں ؟؟۔۔ چنانچہ جیسے ہی شبی کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ اپنے آپ ہی مجھ پر ایک مستی سی چھانے لگی ۔اور میں نے ایک توبہ شکن انگڑائی لیتے ہوئے اس سے کہا ۔۔ آج بڑے لیٹ آئے ہو؟ میری بات سن کر وہ بے چارہ خاصہ حیران ہوا ۔۔۔۔۔اور اسی حیرانی میں ۔۔۔میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔میں تو کوئی لیٹ نہیں باجی ۔بلکہ۔۔ میں تو اپنے ٹائم پر آیا ہوں ۔۔اور پھر میری حالت سے بے خبر اس نے اپنے جوتے اتارے اور بستر پر آ کر لیٹ گیا اور پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔۔ ادھر میں اس کے پاس لیٹی ۔۔۔ اس کی نیند گہری ہونے کے انتظار میں چارپائی پر کروٹیں بدلتی رہی ۔۔۔ اسی دوران آدھی رات ہو گئی اور جب مجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ شبی گہری نیند میں چلا گیا ہے تو میں نے اسے چیک کرنے کی خاطر ۔۔۔اسے ہلکی سی آواز میں شبی کہہ کر پکارا ۔۔۔ لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔ اس کے بعد میں نے تھوڑی تیز اور غصے بھری آواز میں کہا ۔۔۔ شبی کیا تم جاگ رہے ہو؟ لیکن اس بار بھی دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔۔۔ تب میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی آہستگی سے چارپائی اُٹھی۔۔اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ وہ چاندنی رات تھی اور چاند کی چاندنی ہمارے روشن دان اور کھڑکی سے چھن چھن کر کمرے میں آ رہی تھی۔۔۔ جس سے ہمارا تاریک کمرا تھوڑا سا روشن ہو گیا تھا ۔۔۔ اتنا روشن کہ اس ملگجے سے اندھیرے میں مجھے شبی کی دھندلی سی صورت نظر آ رہی تھی۔۔۔ اب میں نے چارپائی پر بیٹھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ایک ہاتھ لہرایا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ پر ہلکی سی چپت مار کر ۔۔ بولی ۔۔۔شبی ۔۔۔او شبی کے بچے۔۔ لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ پا کر میں تھوڑا مطمئن ہو گئی اور پھر ادھر سے ۔۔۔اطمینان حاصل ہونے کے بعد میں نے ایک دفعہ پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ہر طرف ایک گہری خاموشی چھائی تھی ۔۔۔۔اورپھر اسی خاموشی اور خالی پن دیکھ کر ۔میں نے شبی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور آنے والے لمحات کا تصور کرتے ہوئے میرا دل دھڑکنے لگا۔۔۔اور میں اسی دھڑکتے دل کے ساتھ چارپائی پر شبی کے ساتھ جُڑ کر لیٹ گئی۔اور اس کے ردِ عمل کا انتظار کرنے لگی۔ ۔۔ جب وہاں سے کوئی ردِ عمل نہ آیا تو میں تھوڑا اور آگے بڑھی اور اس کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسا لیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے شبی کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔۔۔۔ اور پھر دھیرے دھیرے اس کے بدن کے ساتھ اپنے بدن کو ملا لیا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ اپنے جسم کے زیرں حصے اور اپر باڈی کو اس کے جسم کے ساتھ مسلنے لگی ۔شبی کے ساتھ اپنی باڈی کو مسلتے ہوئے کچھ دیر بعد۔۔۔۔
اچانک ہی مجھے اپنی رانوں کے اوپر ۔۔ کسی نوک دار چیز کی چھبن کا احساس ہوا ۔۔اور یہ نوک دار چیز میری دائیں ران کے اوپری حصے پر چُبھ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے اس کے جسم کے ساتھ اپنا جسم رگڑنا بند کیا اور اس چھبن کے بارے میں غور کرنے لگی ۔۔۔۔اور پھر فورا ً ہی مجھے اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ نوک دار چیز اور کوئی کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔بلکہ شبی کا لن تھا ۔ جو شاید میرے بدن کی رگڑ سے کھڑا ہو گیا تھا ۔شبی کے لن کا خیال آتے ہی میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی – چنانچہ میں فورا ً ہی شبی سے الگ ہوئی اور ایک سائیڈ پر ہو کر اس کے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔ اس وقت شبی ایک سائیڈ کروٹ لیئے ہوا تھا اس لیئے مجھے شلوار کے اندر سے اس لن ٹھیک سے نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ چنانچہ میں نے شبی کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے اس کو کروٹ دلائی ۔۔۔۔اور اب میرے سامنے شبی سیدھا لیٹا ہوا تھا اور عین لن والی جگہ سے اس کی شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔ جسے دیکھ کر مجھے دن کو دیکھے ہوئے کالوں کے لن یاد آ گئے اور اس کے ساتھ ہی میرے من میں ۔۔۔شبی کا لن دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی۔۔۔.. اس خواہش کا میرے زہن میں آنا تھا کہ میں تھوڑا آگے بڑھی اور شبی کی طرف دیکھتے ہوئے پہلے تو اس کی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔ جس سے شلوار میں کھڑا اس کا لن تھوڑا واضع نظر آنے لگا۔۔ لیکن بیچ میں شلوار ہونے کی وجہ سے میرا مزہ تھوڑا کرکرا ہو گیا ۔۔ پھر بھی اس کی اُٹھی ہوئی شلوار میں سے اس کا لن دیکھ کر میرے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔ چونکہ مجھے شبی کا ننگا لن دیکھنے کی شدید حاجت ہو رہی تھی اس لیئے ۔۔۔ میں نے ایک نظر شبی کی طرف دیکھا اور پھر بڑی احتیاط سے ۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ میں نے اس کے نالے پر (آزار بند) پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ اور پھر بڑی آہستگی کے ساتھ شبی کا نالا (آزار بند ) کھول دیا۔۔۔ اور پھر اس کی شلوار نیچے کر دی۔۔۔اور شبی کے ننگے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ جیسے ہی میری نظر شبی کے لن کی طرف گئی تو اسے دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا ۔۔۔۔۔ شبی کا لن ۔۔۔۔۔۔۔ جسے میں لن سمجھ رہی تھی وہ ایک چھوٹی اور پتلی سی للی تھی۔۔۔ جو اس وقت پوری قوت کے ساتھ بلکل سیدھ میں کھڑی تھی ۔۔ چونکہ اس وقت میرے ذہن میں رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے لن گھوم رہے تھے اس لیئے شبی کی چو ٹی سی ۔۔۔للی کو دیکھ کر میں خاصی مایوس ہوئی ۔۔۔۔ کیونکہ نا چاہتے ہوئے بھی میں شبی کے لن کا مقابلہ رسالے میں دیکھے ہوئے حبشیوں کے بڑے بڑے لنوں سے کر رہی تھی ۔۔۔ جبکہ شبی کی للی میری درمیانی انگلی جتنی لمبی اور اسی جتنی موٹی تھی۔۔۔ جبکہ پتہ نہیں کیوں میں اس سے حبشیوں جتنے لن کی تو قع کر رہی تھی جو کہ شبی جیسے بچے کے ساتھ سرا سر ظلم تھا ۔۔ لیکن شہوت کے عروج کی وجہ سے اس وقت مجھے یہ بات سمجھ نہ آ رہی تھی۔۔چنانچہ ادھر سے مایوس ہو کر میں نے دوبارہ سے اس کی شلوار کو باندھا اور ۔۔۔ پھر ۔۔۔ شبی کی للی کی طرف دیکھتے ہوئے رسالے میں دیکھے ہوئے حبشیوں کے لنوں کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ ۔۔
اور جیسے ہی میرے زہن میں کالوں کے بڑے بڑے لنوں کا تصور آیا ۔۔۔میں ایک بار پھر گرم ہو نے لگی۔۔۔۔اور جو کیفیت شبی کے لن کو دیکھ کر ہوئی تھی ۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی ۔۔ اور پھر اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ۔۔۔ کاش ۔۔۔۔شبی کی جگہ کوئی بڑے لن والا مرد ہوتا۔۔تو۔۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی میرے جسم کے زیریں حصے میں دو ٹانگوں کے سنگم پر بنی چوت میں پانی آنا شروع ہو گیا۔اور میں دوبارہ سے اپنی فارم میں آ گئی ادھر چوت میں پانی آتے ہی ۔۔مجھ پر مزید گرمی چڑھ گئی ۔۔۔ چنانچہ اسی گرمی کے تحت میں نے ایک نظر کمرے میں دوڑائی اور پھر شبی کی طرف دیکھ کر میں نے اسے دوبارہ سے اپنی باہوں میں لے لیا ۔۔۔اور پھر اس کو اپنے ساتھ چمٹا کر میں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو تھوڑا سا اور کھولا اور شبی کی نوک دار چیز کو ۔۔اپنی ۔ دونوں ٹانگوں کے بیچ میں کر لیا ۔۔اور اپنے ہپس کو ہلانے لگی۔ ۔۔ہپس ہلانے سے اس کی نوک دار للی جب میرے دانے سے رگڑ کھاتی تو ۔۔۔ مجھ پر مستی کی ایک عجیب لہر سوار ہو جاتی تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر تک میں ایسا کرتی رہی ۔۔۔۔ میں اس کی للی کو جتنا اپنی چوت کے دانے یا لیکر پر پھیرتی ۔۔۔ میرے اندر اتنی ہی آگ بھڑکتی جاتی تھی۔۔۔ اور پھر تھوڑی بعد ۔۔۔
اس کی للی رگڑتے ہوئے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔ ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس نوک دار چیز کو اپنی ۔۔ ٹانگوں کے بیچ سے ہٹایا ۔۔۔اور ۔۔۔۔ تھوڑا ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی ۔۔ شبی کے ساتھ اپنے جسم کو ٹچ کرنے ۔۔۔۔۔اور باالخصوص اس کی نوک دار چیز کی میرے دانے پر رگڑ سے مجھے کافی سکون ملا تھا ۔لیکن میرے اندر لگی ہوئی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی تھی ۔اسی لیئے۔۔ میں علحٰیدہ ہو کر ۔دوبارہ سے۔۔ اس کی شلوار میں اُٹھی ہوئی نوک دار چیز کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف شبی للی کھڑی کیئے ویسے کا ویسا ہی بے سدھ سو رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔اس بات پر میں تھوڑا حیران بھی ہوئی پھر یاد آیا کہ شبی ہمیشہ ہی گھوڑے بیچ کر گہری نیند سویا کرتا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنی تسلی کے لیئے اسے ہلا جُلا کر ٹٹولا تو واقعی ہی اسے سوتے ہوئے پایا ۔ ۔۔۔۔۔ چنانچہ اس طرف سے مطمئن ہو کر کر پہلے تو میں نے اپنی قمیض کو تھوڑا اوپر کیا
اور پھر اپنی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں کو ننگا کر دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر شبی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے اپنے جزبات سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑلیا ۔۔۔۔اور۔۔۔ پھر اس کے ہاتھ کو بڑی آہستگی سے اپنی ننگی چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ اور پھر اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر گھمانے لگی۔۔ ۔۔۔۔ ایسے کرتے ہوئے مجھے بڑی لزت ملی اور ۔۔ پھر اس کا ہاتھ گھماتے ہوئے ۔ مجھے اس کام میں اتنا مزہ ملا۔۔۔ کہ ایسا کرتے ہوئے میری چھاتیوں کے چھوٹے چھوٹے نپل اکڑ گئے اور میرے بدن میں شہوت کی گرمی بڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
۔اس لیئے کچھ دیر تک میں اس کے ہاتھ کو اپنی چھاتیوں پر گھماتی رہی ۔۔۔۔پھر اس کے تھوڑی د یر بعد میں اپنی چاپائی سے تھوڑا اوپر اُٹھی اور شبی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور اس کی طرف سے کوئی ردِ عمل نہ پا کر میں ۔۔ پھر سے چارپائی پر لیٹ گئی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ خود بخود میرے ہاتھ ۔۔۔اپنی شلوار کے نالے (آزار بند ) کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ ہر چند کہ کمرے میں میرے اور شبی کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا۔۔۔ پھر بھی میں بڑی احتیاط برت رہی تھی ۔۔۔۔اور کوئی بھی حرکت کرنے سے پہلے میں آس پاس کے ماحول کو اچھی طرح چیک کر لیتی تھی۔۔۔ چنانچہ اپنی شلوار کا نالہ کھولنے سے پہلے میں نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اس وقت میرا پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔اور بار بار میرے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ اب بس کروں ۔۔کہ ایسا نہ ہو کہ شبی اُٹھ جائے ۔۔۔۔ یا خدا نخواستہ گھر کا کوئی فرد کھڑکی سے دیکھ نہ لے ۔۔ اسی خوف اور انجان اندیشوں یا شہوت کے باعث میرا سارا جسم بری طرح کانپ رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن چونکہ اس وقت میرے سر پر شہوت سوار تھی ۔۔اس لیئے میں ۔۔۔۔ انجانے خوف اور ۔ اندیشو ں ۔ کے ہوتے ہوئے بھی ۔۔۔اپنی شلوار کا نالا کھول رہی تھی۔۔۔۔ پھر میں نے بڑی احتیاط ادھر ادھر اور شبی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی شلوار کا نالا کھولا ۔۔۔۔ اور پھر شلوار کو اپنے گھٹنوں تک سرکا دیا۔۔۔۔ شلوار نیچی کرنےکے بعد میں ایک بار پھر اوپر اُٹھی اور ۔۔۔ اپنی چوت کو دیکھنے لگی ۔۔۔ لیکن رات اور پھر اوپر سے اس پر بھاری تعداد میں بالوں کے ہونے کی وجہ سے میں اپنی چوت کو اچھی طرح سے نہ دیکھ سکی ۔۔۔ اس لیئے میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ اپنی پھدی پر رکھا ۔۔۔۔۔۔ اور ایک انگلی سے اپنی چوت کے لب چیک کرنے لگی۔۔۔ اُف ۔۔۔ میری چوت پانی کا پانی اس کے لبوں تک آیا ہوا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر تک میں نے اپنی چوت کے پانی میں انگلی پھیری ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ ایک نظر باہر دروازے کی طرف دیکھا ا ور پھر شبی کی طرف دیکھا۔۔۔۔ تو وہ ہنوز گہری نیند سویا ہوا تھا ۔۔۔۔ چنانچہ پھر سے میں چارپائی پر لیٹ گئی اور ایک بار پھر شبی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور پھر بڑی آہستگی کے ساتھ اسے اپنی پھدی پر لے آئی۔۔۔ اور پھر اس کی ہتھیلی کو اپنے دانے پر ایڈجسٹ کیا اور بڑی نرمی سے اسے اپنے دانے پر مسلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔ میرے دانے پر شبی کا ہاتھ لگتے ہی ۔۔۔۔۔۔میں مزے کی انوکھی دینا میں پہنچ گئی۔۔۔اور پھر جوش کے مارے میں اس کا ہاتھ اپنے دانے پر رکھے رکھے ۔۔۔ خود ہی اوپر نیچے ہونے لگی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں کبھی تو اس کے ہاتھ کو اپنے دانے پرلاتی اور کبھی۔۔۔ چوت کے درمیان میں رکھ کر خود خوب ہلنے لگتی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ شبی کے ہاتھ میں پتہ نہیں کیا جادو تھا کہ کچھ ہی دیر بعد
۔۔۔ ۔۔۔ میرے جسم میں مخصوص قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ۔۔ اور اپنے منہ کو سختی کے ساتھ بند کرنے کے باوجود بھی سرگوشیوں کی صورت میں میرے منہ سے مستی بھری آوازیں نکلنے لگیں ۔۔ ۔۔۔۔ایسی آوازیں جو چوت سے پانی نکلتے وقت نکلا کرتی ہیں۔۔۔ اور ۔۔پھر تھوڑی ہی دیر بعد میری چوت کے اندر سے ڈھیر سارا پانی برآمد ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔اور اس پانی کے نکلتے ہی میں ٹھنڈی پڑنا شروع ہو گئی۔۔۔ چنانچہ جب میری پھدی سے سارا پانی بہہ بہہ کر چارپائی کی چادر میں جزب ہو گیا تو میں نڈھال سی ہو گئی۔۔ اور میں نے شبی کا ہاتھ واپس اپنی جگہ پررکھا ۔۔۔اور ایک بار پھر چارپائی سے اُٹھ کر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اور سب امن شانتی دیکھ کر مطمن ہو گئی ۔۔ اور پھر تھکاوٹ کی وجہ سے ۔۔اپنی پھدی کو صاف کیئے بغیر ہی شلوار باندھی۔اور بستر پر گر گئی ۔۔ اس وقت تھکن کے مارے میرا کافی برا حال تھا ۔۔۔۔چنانچہ بستر پر لیٹتے ہی میں نے شبی کی طرف کمر کی ۔۔۔۔۔ اور کروٹ بدل کر سو گئی
اگلے دن میں معمول کے مطابق اُٹھی اور پھر شبی کو بھی اُٹھا دیا ۔اُٹھتے ہی حسبِ معمول وہ پیشاب کرنے لیئے واش روم کی طرف بھاگ گیا ۔۔۔ اس کے باہر نکلتے ہی میں نے جلدی سے بستر کی چادر کو تبدیل کیا اور پھر سکول کی یونیفارم پہن کر باہر آگئی۔۔۔ اور پھر ناشتہ کرتے ہوئے بڑے غور سے شبی کو نوٹ کرنے لگی۔۔۔ مقصد صرف یہ تھا کہ آیا اس پر رات والے واقعہ کا کوئی اثر تھا کہ نہیں؟ لیکن بظاہر اس پر رات والی واردات کا کوئی خاص اثر دکھائی نہ دے رہا تھا ۔۔۔ سارا کام معمول کے مطابق پا کر میں دل ہی دل ۔۔۔ میں بڑی خوش ہوئی ۔۔۔ اور اس کے بعد میں بھی ناشتہ کر کے سکول جانے کے لیئے روانہ ہو گئی۔۔ اپنی رات والی واردات پر میں پھولے نہیں سما رہی تھی میری یہ حالت میری بیسٹ فرینڈ عاشی نے بھی نوٹ کر لی اور راستے میں مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا بات ہے صبو !!!!! آج تم ضرورت سے زیادہ ہی خوش نظر آ رہی ہو ؟ تو میں نے تھوڑے سوچنے کے بعد اس کو رات والی ساری واردات سنا دی۔۔۔ جسے سن کر وہ بڑی حیران ہوئی اور کہنے لگی۔۔
حرام دییئے ۔۔۔۔نکے بھرا نوں تے بخش دینا سی( حرام ذادی چھوٹے بھائی کو تو بخش دیتی) تو میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ جب میں نے اپنی نکی بہن کو ( اشارہ عاشی کی طرف تھا کیونکہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ میرے چاچے کی بیٹی تھی ) نہیں بخشا تو بھائی کو کیسے بخش سکتی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر عاشی ہنسی اور ایک گالی دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ توں پکی حرام دی ایں ۔۔پھد ا یوہنے تیری پھدی ویچ بڑا ووڈا کیڑا اے جیہڑا تینوں سکھ دا سا نہیں لین دیندا ۔۔ ( حرام زادیئے ۔۔۔ پھدی مروانے والی تیری چوت میں بہت بڑا کیڑا ہے جو تجھے چین نہیں لینے دیتا ) اور پھر اس کے بعد اس نے کرید کرید کر مجھ سے رات کے واقعہ کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیئے جو میں نے تھوڑے مرچ مصالحہ لگا کر اس کو سنا دیا۔۔جسے سن کر اس کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور پھر اس نے بڑی شوخی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ شبی کا لن کیوں نہیں لیا؟ تو میں نے اسے سچ بتاتے ہوئے کہا کہ یار دل تو بڑا تھا ۔۔۔ لیکن اس کی للی بہت چھوٹی ہے میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ کیا سائز تھا اس کی للی کا؟ تو میں اسے اپنی درمیانی انگلی دکھاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ سائز تھا۔۔۔ عاشی نے بڑے غور سے میری درمیانی انگلی کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگی۔۔ اور موٹائی کتنی تھی؟۔۔تو میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ میری اس انگل جتنی ہی موٹی بھی تھی۔۔۔ یہ سن کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگی تب تو واقعی ہی تمہارے لیئے اس کی للی بہت چھوٹی تھی۔۔۔۔ پھر ایک دم اس نے مجھے گالی دی اور کہنے لگی ۔۔۔ حرام دیئے ۔۔۔۔ اس چھوٹے سے بچے کی اتنی ہی للی ہو گی نا ۔۔۔ تو میں نےاس کی طرف دیکھ کر دانت نکالتے ہوئے کہا کہ بے شک اتنا ہی ہو گی پر ۔۔۔۔۔۔تُو تو جانتی ہی ہے کہ میں نے اس چھوٹی سی للُی کا کیا کرنا تھا ؟ چونکہ میرا اس چھوٹی سی للی سے گزارا نہیں ہونا تھا اس لیئے میں نے شبی سے دوسرے طریقے سے سُکھ لیا ہے کیونکہ تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے شبی کے لن سے نہیں اپنی پھدی ٹھنڈی کرنے سے غرض تھی اس لیئے میں نے اپنی پھدی کو ہر ممکن طریقے سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہی ہوں ۔ تب عاشی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ ہلا فیر ہن کی صلاح ای؟ ( اچھا یہ بتاؤ کہ اب تمہارا کیا پروگرام ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ) تو میں نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ ماری اور کہنے لگی۔۔۔ کہ شام سویرے ہن موجا ں ای موجاں ۔۔۔
سکول میں پہنچی تو زرینہ نے مجھے بتایا کہ آج وہ میرے لیئے ایک دوسرا رسالہ لائی ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے وہ رسالہ میرے حوالے کر دیا یہ رسالہ بھی پہلے کی طرح صرف تصویروں سے بھرا ہوا تھا پہلے رسالے کی نسبت اس میں فرق یہ تھا کہ اس میں ننگی گوریوں کے ساتھ حبشیوں کے برعکس گوروں کی تصویریں تھیں حبشیوں کی طرح ان گوروں کے بھی بڑے بڑے لن تھے ۔۔۔ میں نے اور عاشی نے یہ رسالہ پہلے تفریع پھر خالی پیریڈ میں دیکھا ۔ اور اس رسالے کو دیکھ کر مجھ سے زیادہ عاشی بہت زیادہ گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ گرم تو میں بھی ہوئی تھی تھی لیکن مجھ پر اس درجے کی گرمی نہ چڑھ سکی تھی کہ جتنی گرمی عاشی کو چڑھی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی رات کو ہی میرا بہت بڑا آرگیزم ہو ا تھا ۔۔جبکہ دوسری طرف عاشی کے گرم ہونے کی ایک وجہ میری صبع والی سیکس سے بھر پور داستان تھی جسے میں نے خوب نمک مرچ لگا کر اسے سنایا تھا اور جسے سن کر اس کے ہوش اُڑ گئے تھے اور وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بار بار مجھ سے ایک ایک لمحے کے بارے میں تفصیل پوچھتی رہی تھی پھر کیا ہوا ؟۔۔۔ تم نے کیا کیا ؟۔۔۔اپنی پھدی کو اس کے جسم کے کس کس حصے پر رگڑا ؟؟ ۔کس جگہ پھدی رگڑنے کا ذیادہ مزہ آیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ دوسرا وہ رسالہ واقعی میں ہی بڑا شاندار تھا ۔۔۔ چنانچہ تفریع کے بعد خالی پیریڈ میں جب میں اور عاشی وہ رسالہ دوسری دفعہ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ تو اچانک ہی عاشی ۔۔۔ نے اپنا منہ میرے کان کے قریب کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔میرا کُج کر صبو۔۔۔(صبو میرا کچھ کرو) تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ کیا ذیادہ چڑھ گئی ہے؟ تو وہ بجائے جواب دینے کے کہنے لگی۔۔میں واش روم میں جا رہی ہوں ۔۔۔ جلدی سے تم بھی آ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ اس کے جاتے ہی ۔۔۔میں بھی اُٹھی اور ۔۔۔۔اسی کارنر والے واش روم میں جا کر اس کی پھدی کو خوب مسلا تھا جس کی وجہ سے اس کی چوت کا بخار کچھ کم ہوا۔۔۔۔جب اس کو کچھ تسلی ہو گئی تو میں واپس آگئی۔۔۔۔
چھٹی کے وقت رسالہ واپس کرتے ہوئے زرینہ نے مجھ سے کہا کہ وہ اگلا رسالہ سیکسی کہانیوں والا لائے گی ۔۔جس کی سٹوریاں پڑھ کے تم حیران رہ جاؤ گی ۔۔۔ زرینہ کی بات سن کر میں نے اس کا شکریہ تو ادا کیا ۔۔ لیکن وہ کن کہانیوں کا ذکر کر رہی تھی اس کا میں نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا ۔۔۔ کیونکہ اس وقت میرے ذہن میں رات کو کرنے والا پروگرم چل رہا تھا اور میں دل ہی دل میں یہ پلان بنا رہی تھی کہ آج رات شبی کے ساتھ میں فلاں جگہ اپنی چوت رگڑوں گی ۔۔فلاں جگہ ۔۔۔ پر اس کا ہاتھ رکھوں گی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اسی لیئے چھٹی کے بعد گھر آ کر میں بڑی بے چینی سے رات ہونے کا انتطار کرنے لگی ۔۔۔۔ لیکن رات آنے سے پہلے ہی میرا کام خراب ہو گیا ۔۔۔ مطلب یہ کہ مجھے پیریڈز آ گئے تھے ۔۔چنانچہ یہ دیکھ کر میں نے پیریڈز کے ختم ہونے تک رات والا پروگرام ملتوی کر دیا ۔۔ ہاں سوتے میں اس کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ جاری رکھی۔۔۔– اگلے دن سکول جاتے ہوئے جب عاشی نے مجھ سے پوچھا کہ رات دی سنا تو میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے اسے اپنے پیریڈز کے بارے میں بتایا ۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ چنگا ہویا ۔۔اے ۔ ۔۔۔ تیرا یہی علاج ہے ۔۔۔ اسی طرح اگلے چار پانچ روز امن شانتی رہی ہاں اس دوران زرینہ روز ہی اردو کہانیوں پر مبنی پڑھنے والے رسالے لاتی رہی۔۔۔ جن کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر میں اور عاشی بڑی خوار ہوئیں۔اور ان سٹوریز کو پڑھ پڑھ کر مجھے اور عاشی کو ایک بار پھر ایک دوسرے کی چوت چاٹنے کا شوق پیدا ہو گیا۔لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ جیسے ہی میرے پیریڈز ختم ہوئے عاشی کے شروع ہو گئے اور ہم دونوں ٹھنڈی آہیں بھر نے کے باوجود موقعہ ملنے پر ایک دوسرے کے ساتھ مزے لیتی رہیں –
دوسری طرف زرینہ سے میری دوستی مزید گہری ہو گئی تھی اور پتہ نہیں کیوں ۔۔وہ اکثر ہی میرے سانولے حُسن کی بڑی تعریف کیا کرتی تھی ۔۔آخر ایک دن میں نے اس پوچھ ہی لیا کہ وہ میرے حُسن کی اتنی تعریفیں کیوں کرتی ہے؟ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔ایک میں ہی نہیں ۔۔۔ صبو ۔۔جی تمہارے اس نمکین حسن کے تو کافی عاشق پیدا ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ عاشق اور میرے ؟؟؟؟ تو وہ بولی ۔۔۔ارے تم کو معلوم نہیں کہ تم کتنی سیکسی لڑکی ہو پھر وہ گنگناتے ہوئے بولی۔۔۔تیری چال بھی سیکسی ۔۔۔۔تیرے بال بھی سیکسی ۔۔۔ تیرے ہونٹ بھی سیکسی ہیں۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور آنکھ مار کر بولی ۔۔۔ میری جان تو سیکسی بہت ہی سیکسی ہے۔۔ اس کے بعد وہ ایک دم سے سیریس ہو گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ صبو جی۔۔۔ہمارے گاؤں کا ایک لڑکا تو تمہارا نام لیکر جیتا مرتا ہے ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد اس نے اس لڑکے کی مجھ سے محبت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ایسا سماع باندھا کہ ۔میں اندر سے باغ باغ ہوئی ۔۔۔ اور اسی خوشی میں ۔۔۔تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد زرینہ سے ۔۔۔بولی ۔۔کہ وہ لڑکا کون ہے ؟ جو میری محبت میں اتنا پاگل ہوا پھرتا ہے تو وہ کہنے لگی۔۔ہے ایک لڑکا جس پر تمہارے حسن کا جادو چل چکا ہے۔۔اس کی بات سن کر میں پھسل ہی گئی اور اس سے کہا بتا نا وہ کون ہے ؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ کیا فائدہ بتانے کا کہ۔۔۔۔ تم ٹھہری ایک نیک پروین ۔۔۔اور مزہبی قسم کی لڑکی ۔۔۔۔۔۔
تم نے اس سے ملنا تو ہے نہیں۔۔اس لیئے اس بے چارے کو اپنی آگ میں جلنے دو۔۔۔ زرینہ کی یہ بات سن کر اندر سے میں تڑپ ہی گئی ۔۔۔اور اس لڑکے کا نام جاننے کے لیئے بے چین ہو گئی ۔۔لیکن بظاہر اسی متانت سے بولی۔۔۔۔۔ تم بتاؤ تو سہی اگر لڑکا اچھا ہو تو ملنے کا بھی سوچ لوں گی ۔۔۔میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور وہ کہنے لگی ۔۔۔اوکے میں بتاتی ہوں اور پھر اس نے مجھے اس لڑکے کے بارے میں تفصیل سے بتایا جو کہ زرینہ کے گاؤں کا رہنے والا تھا ۔۔۔۔ اور وہ بھی زرینہ کے ساتھ ہمارے ٹاؤن میں پڑھنے کے لیئے آتا تھا ۔ میں نے اس لڑکے کو دیکھا ہوا تھا۔ وہ بھی میری طرح سے رنگ میں تھوڑا سانولہ تھا اور مجھ سے ایک کلاس آگے یعنی میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا لڑکوں کا سکول ہمارے سکول سے تھوڑا ہی آگے تھا۔۔۔
مجھے اپنے عاشق کے بارے میں بتانے کے بعد زرینہ نے مجھے اس اس بات کی سختی سے تاکید کی تھی کہ میں کسی طور بھی اس بات کا ذکر عاشی سے نہ کروں اور میرے پوچھنے پر کہنے لگی ۔۔۔۔۔ صبو یار اتنی بھولی بھی نہ بنو ۔۔۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ تمھاری "شریکہ برادری" میں سے ہے؟ اور ابھی تو وہ تمھارے ساتھ پڑھتی ہے اور تمہاری دوست ہے۔۔۔ لیکن سوچو اگر کل کو ۔۔۔ ۔۔ تمہارے ساتھ لوگوں کی ان بن بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔تو ایسے موقعہ پر شریکے والیاں ایک دوسرے کا سارا کھچا چھٹا کھول کے رکھ دیتی ہیں ۔اس لیئے میری مانو تو اس بات کا اس سے ذکر نہ کرو ۔۔غرض کہ یہ بات اس نے کچھ ایسے طریقے سے سمجھائی کہ میں نے عاشی سے اس بات کا زکر نہ کرنے کی ٹھان لی۔۔۔ ادھر دن بدن زرینہ سے میری قربت کو دیکھ کر عاشی نے بھی ایک دو ست بنا لی تھی۔۔ لیکن اس کے باوجود ہم دونوں اکھٹے ہی سکول آتی جاتی تھیں۔۔۔اور موقعہ ملنے پر ۔۔ایک دوسری کے ساتھ مزے بھی لیتی تھیں۔۔۔اور اب تو ہم نے ایک دوسری کی پھدیاں بھی چاٹنا شروع کر دیں تھیں چنانچہ گھر وں تک ہماری دوستی ابھی تک ویسی کی ویسی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن سکول میں آ کر ہم دونوں الگ الگ ہو جاتیں تھیں ۔۔اور سارا دن اپنی اپنی دوستوں کے ساتھ مگن رہتیں تھی ۔۔۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی تک آپس میں ہم نے اس تبدیلی کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ کوئی ڈسکس نہیں کی تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم دونوں نے ایک خاموش معاہدے کے تحت اس تبدیلی کو قبول کر لیا تھا اور اب ہم دونوں ہی اپنی اپنی کمپنی میں خوش تھیں ۔۔۔ ہاں ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گئی کہ اس عاشقی کے ساتھ ساتھ شبی کے ساتھ میرا رات کا پروگرام بھی جاری تھا۔۔۔ زرینہ نے جس لڑکا کو میرا عاشق بتایا تھا اس کا نام اظہر تھا ۔۔وہ ایک بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا۔۔ ۔۔ اور جس دن سے میں نے زرینہ کو اظہر کے بارے میں تھوڑی آمادگی ظاہر کی تھی اس سے اگلے دن سے اظہر روز ہی چھٹی کے وقت مجھے اپنی شکل دکھاتا تھا ۔وہ یوں کہ اکثر ہی چھٹی کے وقت وہ ۔۔ہمارے راستے میں کہیں نہ کہیں کھڑا ہوتا تھا ۔اور اس بات کا صرف مجھے پتہ ہوتا تھا کہ وہ میرے لیئے کھڑا ہے ۔۔ میں اس کو روز دیکھتی ضرور تھی لیکن عاشی کے سامنے نہ تو میں نے اس کے ساتھ کوئی اشارہ بازی کی تھی اور نہ ہی اس کے متعلق اس سے کوئی گفتگو کی تھی
۔۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ اظہر کبھی ایک مخصوص جگہ پر نہیں کھڑا ہوتا تھا ۔۔ بلکہ میرے کہنے پر وہ روز جگہ بدل بدل کر ہمارے گھر کے راستے میں کہیں نہ کہیں کھڑا مل جاتا تھا۔۔۔۔ میں اور عاشی بڑے نارمل طریقے سے اس کے پاس سے گزر جاتی تھیں ۔ نہ میں اس سے کچھ کہتی اور نہ ہی وہ مجھ سے کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔ بس وہ روزانہ بقول زرینہ کے صرف میرے دیدار کے لیئے کھڑا ہوتا تھا ۔۔۔ اور جیسے ہی ہم اس کے پاس سے گزرتیں تو چند سکینڈ کے لیئے ہم دونوں کی نظروں سے نظریں ملا کرتی تھیں۔۔۔۔۔اور ان چند سیکنڈز میں ایک دوسرے سے ملنے والی ہماری نظریں بڑا کچھ کہہ جاتی تھیں۔۔۔ روز روز اس کے کھڑے ہونے سے عاشی کو کُھد بُد تو تھی لیکن چونکہ اس کے سامنے نہ تو میں نے کسی قسم کی دل چسپی کا اظہار کیا تھا اور نہ ہی اس نے کبھی کوئی اشارہ کیا تھا۔۔۔ اس لیئے عاشی چپ رہتی تھی ۔۔۔ ہاں ایک دو دفعہ اس نے یہ ضرور کہا کہ یہ لڑکا ہمیں روز ہی کہیں نہ کہیں کھڑا ملتا ہے اس پر میں نے اپنے لہجے کو بڑا ہی سرسری سا بنا کر اس سے کہا کہ چھٹی کا وقت ہے۔۔۔۔ یہ بھی دوسرے لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو تاڑنے آتا ہو گا میری بات سن کر عاشی نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔اسی دوران زرینہ مجھ سے اظہر کے پیغامات شئیر کیا کرتی تھی ۔۔ ایک دفعہ اس نے اظہر کا رقعہ بھی دینے کی کوشش کی تھی لیکن میں نے ڈر کے مارے وہ رقعہ لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔ اس لیئے اب زرینہ صرف اس کے پیغامات ہی دیا کرتی تھی۔ جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مجھ سے بڑی محبت کرتا تھا اور میرے لیئے جان بھی دے سکتا تھا ۔۔اس کے ساتھ ساتھ ہر پیغام میں وہ مجھ سے ملنے کی بھی درخواست کیا کرتا تھا
ایک دن زرینہ نے مجھ سے کہا کہ صبو۔۔ اظہری کہہ رہا ہے کہ اور کتنا تڑپاؤ گی ؟؟۔۔۔۔بس ایک ملاقات ہی کرلو ۔۔۔کہ مجھے کچھ صبر آ جائے۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔ وہ تم سے ملنے کو بہت بے تاب ہے اس وقت تک میرے دل میں بھی اظہر کے لیئے کافی تڑپ پیدا ہو چکی تھی اور سیکسی سٹوریز پڑھ پڑھ کے ویسے ہی میری مت ماری ہوئی تھی اور میری پھدی موٹا سا لن مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اظہری کا پیغام سن کر اس سے کہا کہ یار اب تو میرا بھی اظہری سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے ۔۔۔۔ لیکن اس طرح ملنے سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو ؟ تم تو جانتی ہی ہو کہ ہماری فیملی کتنی مزہبی ہے اگر کسی طرح ان کو پتہ چل گیا تو میرے ابا مجھے زندہ گاڑ دیں گے ۔۔پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مزید بولی کہ دوسری بات کہ جس کی وجہ سے میں نہیں مل سکتی ۔۔اس کے بارے میں تم اچھی طرح سے جانتی ہو۔۔۔ کہ میرے ساتھ ایک چوکیدار بھی ہوتا ہے ۔۔۔ ( چوکیدار سے میری مراد عاشی سے تھی کہ جو روزانہ مر ے ساتھ سکول آتی جاتی تھی) میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔ تمہاری دونوں باتیں ٹھیک ہیں ۔۔ لیکن یار میں کیا کروں کہ وہ تم سے ملنے کے لیئے مرا جا رہا ہے ۔۔۔ تم ہاں کرو تو میں تم سے اس کی ملاقات کروا سکتی ہوں ۔۔۔ کیسے کرواتی ہوں یہ مجھ پہ چھوڑ دو۔ پھر اس نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لے آئی اور سرگوشی میں کہنے لگی ۔۔۔کہ میں تمہاری اظہری کے ساتھ ایسے خفیہ طریقے سے ملاقات کرواؤں گی کہ کسی کو کانوں کان بھی اس بات کی خبر نہیں ہو گی ۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اور بھی بہت سی چکنی چپڑی باتیں کیں اور مجھے بھر پور تسلی دی ۔۔۔اور اس کے تسلی کے بعد میں اس اظہر سے ملنے پر راضی ہو گئی۔۔۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ اتفاق سے اس دن بخار کی وجہ سے عاشی سکول نہیں آئی تھی ۔۔۔۔ اسمبلی کے وقت میں نے یہ بات زرینہ کو بتا دی کہ بخار کی وجہ سے عاشی آج نہیں آئی ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑی خوش ہوئی اور مجھ سے کہنے لگی کیا خیال ہے ۔۔۔آج یار سے ملاقات نہ کر لی جائے ؟؟؟؟۔۔۔پھر اسملی ختم ہونے کے بعد مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ تیار ہو جاؤ صبو۔۔۔ ۔۔ آج میں تمھاری اظہر سے ملاقات کرواؤں گی اس کی بات سن کر پتہ نہیں کیوں میرا دل دھڑکنے لگا ۔۔اور میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے پوچھا ۔۔ ملاقات کیسے کراؤ گی کہ اس بات کا تو اظہر کو پتہ ہی نہیں ہے ۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔یار تُو اس بات کی چنتا نہ کر ۔۔۔۔ اظہر سے تمہاری ملاقات کرانا میرا کام ہے ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے ۔۔۔اس ملاقات کے لیئے وہ روز ہی میری منتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولی آج چھٹی کے وقت عاشی کی جگہ میں تمہارے ساتھ جاؤں گی اور جہاں جہاں میں تمہیں لے جاؤں تم نے چپ چاپ میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ ۔۔۔ رہی اظہر کی بات تو میں اسے اشارے سے بتا دوں گی۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ تم دونوں کی ملاقات کے لیئے پہلے سے ہی میں نے جگہ سوچی ہوئی ہے۔۔۔
اس دن سکول میں ۔۔۔ میں سارا دن اظہر کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔۔۔ اور چھٹی کا انتظار کرتی رہی ۔۔ پھر خدا خدا کر کے چھٹی کی گھنٹی بجی جیسے ہی میں جانے کے اُٹھی تو زرینہ نے مجھے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور پھر جب ساری کلاس چلی گئی تو سب سے آخر میں ہم دونوں سکول سے نکلیں اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اظہر سے ملنے کے لیئے چل پڑی اس وقت میری عجیب حالت ہو رہی تھی ۔۔۔ڈر بھی لگ رہا تھا اور اظہر سے ملنے کا شوق بھی غالب آ رہا تھا۔۔۔ راستے میں زرینہ پتہ نہیں کیا کیا باتیں کر رہی تھی لیکن میں اپنی ہی سوچوں میں گم اس کے ساتھ چلی جا رہی تھی۔۔۔ سکول سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہمیں اظہر کھڑا ملا ۔۔۔ جس کو دیکھ کر زرینہ نے مجھے کہنی ماری اور کہنے لگی۔۔۔ وہ دیکھ سامنے تیرا یار کھڑا ہے ۔۔ پھر پتہ نہیں اس نے اظہری کو کیا اشارہ کیا کہ وہ ایک دم سے تقریباً بھاگتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔۔۔ اس کو یوں جاتے دیکھ کر میں نے زرینہ سے کہا ۔۔۔ کہ اسے کیا ہوا ہے؟ تو وہ بولی۔۔۔ کچھ نہیں میں نے اشارے سے ملاقات والی جگہ جانے کا بتایا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس سے بولی ۔۔۔ ملاقات والی جگہ ؟ یہ کہاں ہے ؟ تو وہ میری طرف آنکھ مار کر کہنے لگی ابھی پتہ چل جائے گا۔۔۔پھر میرے اصرار پر اس نے بتلایا کہ اس ملاقات والی جگہ کے بارے میں بتایا ۔۔۔
کسی زمانے میں ہمارے ٹاؤن میں ایک چھوٹا سا ڈنگر ہسپتال بنا تھا ۔۔ جس میں ایک ڈنگر ڈاکٹر اور اس کا باقی سٹاف ہوا کرتا تھا ۔۔۔ پھر ایسا ہوا کہ اس ڈاکٹر صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا ۔۔اور کافی عرصہ تک کوئی نیا ڈنگر ڈاکٹر وہاں تعین نہ ہو سکا ۔۔ پھر ہمارے پاس کے ایک گاؤں کے لڑکے نے جو کہ نیا نیا ویٹنری ڈاکٹر جسے ہم ڈنگر ڈاکٹر یا سلوتری بھی کہتے ہیں نے اپنا ٹرانسفر وہاں کروا لیا ۔۔۔ لیکن بجائے ہمارے قصبے میں آنے کے اس نے اپنے گاؤں میں یہ کام شروع کر دیا اور ہپستال کی ساری دوائیاں وغیرہ اپنے ہاں لے گیا ۔۔اسی طرح جب سارا سامان وہاں شفٹ ہو گیا تو باقی سٹاف بھی وہاں چلا گیا ہاں اس کا چوکیدار ہفتے میں ایک آدھ چکر لگا لیا کرتا تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ بھی صرف چکر لگا کر چلا جایا کرتا تھا ۔۔۔اور اس طرح ہسپتال کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کی حالت خستہ ہونے لگی ۔۔۔
یہ ہسپتال ہمارے ٹاؤن کے ایک کونےپر واقعہ تھا اور اس ہسپتال کے آگے کھیت وغیرہ شروع ہو جاتے تھے ۔۔ اور ہسپتال کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً اس کی بیک سائیڈ پر پاس کافی خود رپودے اور جھاڑیں اُگ آ ئیں تھیں ۔۔۔اور ان جھاڑوں کے پاس بہت سارے درختوں کا ایک جھنڈ تھا اور ہم نے اس ہسپتال کے پیچھے ان جھاڑیوں کی اوڑھ میں ملنا تھا ۔۔۔ کیونکہ ہسپتال کے سامنے سے زرینہ کے گاؤں کو راستہ جاتا تھا ۔۔۔ اوراس راستے سے تھوڑا ہٹ کر یہ ہسپتال بنا تھا جو آج کل ویران تھا ۔۔ ہاں شام کو ہمارے گاؤں کے لڑکے یہاں کرکٹ یا والی بال وغیرہ کھیلتے تھے۔۔۔ چنانچہ میں اور زرینہ چلتے ہوئے وہاں پہنچ گئیں ۔۔ جیسے ہی ہسپتا ل نزدیک آیا ۔۔۔تو زرینہ نے ایک نظر پیچھے دیکھا اور پھر مجھ سے کہنے لگی ہسپتال کی پچھلی سائیڈ پر وہ جو بڑی بڑی جھاڑیا ں ہیں نا ۔۔۔۔۔۔ وہاں تمہارا یار کھڑا ہو گا تم جاؤ۔۔۔ اور اگر کسی نے راستے میں پوچھ لیا تو کہہ دینا کہ میں یہاں پیشاب کرنے آئی تھی۔۔ ۔۔ اب میں نے ایک نظر زرینہ کی طرف اور پھر بڑی بڑی جھاڑیوں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے تم بھی ساتھ چلو نا۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ تو جا ۔۔۔تمہاری چوکیداری کے لیئے میں یہاں کھڑی ہوں نا۔۔۔۔ اورپھر وہ مجھے دھکا دے کر بولی۔۔۔ یہ جھاڑیاں بس دور سے ایسی لگتی ہیں ۔۔ تم پاس جاؤ گی تو پتہ چلے گا کہ اندر ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے ڈرتے ڈرتے وہاں پہلا قدم رکھ دیا۔۔۔ ہسپتال کے پیچھے بڑی بڑی جھاڑیاں اور گھاس پھونس اُگی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور انہی جھاڑیوں کے بیچ میں کہیں وہ کھڑا تھا۔۔۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ ابھی میں نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ اچانک ہی اظہری میرے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ اسے یوں اچانک سامنے دیکھ کر میری تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ اور اسے دیکھ کر میں نے شرم سے اپنا چہرہ جھکا لیا۔۔۔ اس وقت پتہ نہیں کیوں مجھے اس سے بڑی شرم ا ٓرہی تھی۔۔۔ اور اپنی اس حالت پہ میں خود بھی حیران تھی ۔۔ کیونکہ میں وہ لڑکی تھی جو کہ آدھی رات کو اپنی شلوار اتار کے بھائی کے ساتھ مزے لیتی تھی۔۔۔۔ لیکن اس وقت میں شرم سے دھری ہوئی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میں کانپ بھی رہی تھی۔۔۔ کچھ دیر تک ہم دونوں میں مکمل خاموشی رہی
پھر اس نے ہی ابتدا کی اور بولا ۔۔۔ ۔۔۔۔ کیسی ہو صبو؟ تو میں نے بجائے جواب دینے کے اپناسر ہلا دیا۔۔۔۔ میری حالت دیکھ کر وہ تھوڑا ہنسا اور کہنے لگا۔۔۔۔ یہ تم اتنی کانپ کیوں رہی ہو؟ میری طرف دیکھو میں کوئی بھو ُ بلا (بھوت) تو نہیں ہوں ۔۔۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اور بولا ۔۔ پلیزززز مجھ سے نہ ڈرو۔۔۔ لیکن یہ ڈرنا میرے بس میں تھوڑی تھا ۔۔۔اس لیئے میں ویسے ہی سر جھکائے کانپتی رہی تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے ہاتھ میری تھوڑی پر رکھا اور میرا منہ اوپر کر دیا ۔۔۔ اور بڑے ہی رومانٹک لہجے میں بولا ۔۔ صبو ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔ پھر بولا ۔۔ تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر ہی ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ میری جان میں تمہارے منہ سے یہ بات سننا چاہتا ہوں۔۔ اور پھر اس کے بار بار اصرار پر میں نے ۔۔ صرف اتنا کہا ۔۔۔ جی میں وی۔۔۔ کہہ کر دوبارہ سے سر جھکا لیا اس وقت شرم کے مارے میرا سانولہ چہرہ لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے تھوڑی اور محبت بھری باتیں کیں ۔۔۔ جن کا میں نے بس ہوں ۔۔ہاں ۔۔۔ میں جواب دیا۔۔۔۔ اور پھر اس سے کہنے لگی ۔۔۔ اب میں چلتی ہوں ۔۔ میری بات سن کر وہ تڑپ گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔ ابھی تو آئی ہو ۔۔۔ لیکن میرے باربار اصرار پر وہ کہنے لگا۔۔۔۔اچھا ایک شرط پر اجازت دیتا ہوں ۔۔۔ تم کل پھر آنا ۔۔۔ تو میں نے کہا۔۔۔ جی کوشش کروں گی ۔۔۔ میری یہ بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا ۔۔۔اور اس نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔ اور پھر فوراً ہی میرے گالوں کو چوم کر بولا۔۔۔۔۔۔ پلیزززززززز کل ضرور آنا۔میں انتظار کروں گا ۔۔اور میں اس سے وعدہ کر کے جس راستے سے آئی تھی اسی راستے سے واپس آگئی۔
میں نے اس سے کل آنے کا وعدہ تو کر لیا تھا لیکن دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ کل اس سے کیسے ملوں گی؟ پھر خیال آیا کہ اگر عاشی ۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی میں دل ہی دل میں عاشی کو مزید بیمار رہنے کی دعائیں کرنے لگی۔۔۔ہر چند کہ اظہر کے ساتھ ملاقات میں ۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔ لیکن خاص کر مجھے اس سے گلے ملنے کا بہت مزہ آیا تھا ۔۔۔اور جو اس نے میرے گال کو چاما تھا۔۔۔وہ تو اور بھی "صوادلہ" تھا۔۔۔۔۔چنانچہ اس دن میں عاشی کے مزید بیمار رہنے کی دعائیں مانگتی رہی۔۔۔ اور میری یہ دعا ۔۔۔ یوں قبول ہوئی کہ ۔۔۔ اسی شام میرے چاچے کو اطلا ع ملی کہ عاشی کے نانا پر فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔۔ اس اطلاع کا ملنا تھا کہ عاشی اور اس کی اماں بمعہ میری ماں کے فوراً ہی نانا کی خبر گیری کے لیئے روانہ ہو گئے۔۔۔ عاشی جاتے جاتے مجھے چار دن کی چھٹی کی درخواست بھی دے گئی تھی ۔
آپ نے وہ محاورہ تو ضرور سنا ہو گا ۔۔۔ کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔۔۔۔ تو اس وقت یہ محاور مجھ پر بڑا فٹ نظر آ رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ ایک تو چوکیدار یعنی کہ عاشی نہیں تھی اور دوسری گھر لیٹ آنے پر باز پرس کرنے والی میری اماں ۔۔۔۔بھی تین چار دن کے لیئے گھر سے چلی گئی تھی۔۔۔۔ اس لیئے اب میں بے غم ہو کر اپنے محبوب یعنی کہ اظہری سے مل سکتی تھی۔۔۔
چنانچہ اگلے دو تین دن میں اور اظہری ہسپتال کے پیچھے اُگی ہوئی انہیں بڑی بڑی جھاڑویوں میں ملتے رہے ۔۔اور ان دو تین ملاقاتوں میں ۔۔۔ میرا ڈر خاصہ دور ہو گیا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ آخری ملاقات میں اس نے جاتی دفعہ میرے ساتھ لپ کسنگ بھی کی تھی۔۔۔ اور یہ پہلی دفعہ تھی کہ کسی مرد کے ہونٹوں نے میرے کنواروں ہونٹوں کو چھوا تھا ۔۔ اور مجھے اس کے ہونٹوں کا لمس اتنا اچھا لگا تھا ۔ کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ میرے ہونٹ چوستا جائے ۔۔۔۔ ہوا کچھ یوں تھا ۔۔کہ جب میں نے اظہری سے وداع لینے کا کہا تو حسبِ معمول اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔اور پھربجائے گالوں پر کس کرنے کے اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔۔ اور اس کے ہونٹوں کا میرے ہونٹوں سے مس ہونا تھا کہ میرے اندر ایک عجیب سی مستی بھر گئی ۔۔۔۔ ا ور اسی مستی کے عالم میں ۔۔۔ میں اس کے اور قریب ہو گئی۔۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک وہ میرے ہونٹوں کو چوستا رہا ۔۔۔۔۔پھر اچانک ہی اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی۔۔۔اُف۔ف۔فف۔ف۔ف۔ف۔۔ف۔۔۔۔۔ اس کی زبان کا میری زبان سے ٹکرانا تھا۔۔۔ کہ میرے سارے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔۔اوراس سے قبل کہ میں اپنے حواس کھوبیٹھتی ۔۔۔ میں فوراً اس سے الگ ہو گئی ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ بھاگ کر واپس چلی گئی۔۔۔۔۔ بھاگی اس لیئے کہ میرے اندر شہوت نے سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔۔۔اور مجھے معلوم تھا کہ اگر اس نے ایسے ہی اپنی زبان کا میری زبان سے ٹکراؤ جاری رکھا تو ۔۔۔۔میری شہوت بے قابو ہو جائے گی ۔۔۔۔۔اور اگر میری شہوت بے قابو ہو گئی تو۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیئے میں وہاں بھاگ آئی تھی۔۔۔
یہ اس دن کا واقعہ ہے کہ جس کے اگلے دن امی لوگوں نے واپس آنا تھا ۔۔۔اس دن کلاس میں بیٹھی ہوئی زرینہ نے مجھ سے کہا۔۔۔ کل بڑی بھاگی جا رہی تھی۔۔ خیر یت تو تھی ؟؟؟ تو میں نے اس سے کسنگ کے بارے میں بتایا ۔۔۔تو سن کر اس نے ایک جھرجھری سی لی اور کہنے لگی۔۔۔ یار زبانوں کے ٹکراؤ سے تو واقعی ہی بڑی آگ لگ جاتی ہے ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ کتنا مزہ آیا تھا ؟ تو میں نے سرخ ہوتے ہوئے کہا کہ مت پوچھ یار۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی ۔۔۔صبو تیرے ہونٹ بڑے جوسی اور سیکسی ہیں ۔پھر کہنے لگی۔۔۔ جب تم کو اتنا مزہ مل رہا تھا تو پھر مزے کو جی بھر کے لینا تھا ۔۔۔۔ یوں بیچ میں چھوڑ کے کیوں بھاگ آئی تھی؟۔۔۔ تو میں نے اس سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔۔۔یار مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں کوئی آ نا جائے۔۔۔ تم کو تو پتہ ہے کہ وہ اوپن سی جگہ ہے جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی آ سکتا ہے ۔۔۔ یہ سن کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی کہتی تو ٹھیک ہے یار۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے میرے ہونٹوں پراپنی انگلی رکھی اور میرے نرم ہونٹوں پر پھیر کر بولی ۔۔سچ کہہ رہی ہوں صبو۔ ۔۔ میرے خیال میں تو تم سے زیادہ ہونٹوں کی کسنگ کا ۔۔۔اظہری کو مزہ آیا ہو گا۔۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ چلو آج جی بھر کے اس کے ساتھ کسنگ کر لینا۔۔۔ آج میں تم سے اس کی ملاقات ایک ایسی جگہ کروؤں گی کہ جہاں کوئی ڈر جھکا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کیا مطلب؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ اوہ ۔۔سوری یار میں تم کو ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی تھی کہ آج ہم لوگ ہسپتال کے اندر ملیں گے؟ اس کی بات سن کر میں حیران ہو گئی اور اس سے بولی ۔۔۔
ہسپتال کے اندر لیکن وہ کیسے ؟ اس کے تو گیٹ پر تالہ ہوتا ہے؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ بھولے بادشاہو ۔۔ تالا تو ہسپتال کے سامنے اس کے مین گیٹ پر ہوتا ہے ۔۔۔۔ پیچھے تو نہیں نا۔۔۔۔۔اس پر میں نے نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا میں تم کو تفصیل سے بتاتی ہوں پھر کہنے لگی۔۔۔ سنو صبو ۔۔۔ ڈنگر ہسپتال کی پچھلی دیوار کی کچھ اینٹیں ۔۔کافی عرصہ سے اکھڑی ہوئی ہے ۔۔اس لیئے اکثر میں اور میرا یار اس دیوار کو پھلانگ کر اندر کمروں میں ملتے ہیں ۔۔۔ وہاں نہ تو کسی کے آنے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی آتا ہے۔۔اس لیئے آج میں اپنے یار سے اور تم اپنے یار سے ۔۔۔ہسپتال کی بیک سائیڈ سے اسی ٹوٹی دیوار کو پھلانگ کر ملیں گے۔۔۔۔ پھر آنکھ بند کر کے بولی ۔۔۔ وہاں کسی کا ڈر بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ جتنی دیر مرضی ہے اپنے یار کے ساتھ کسنگ کرنا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی خوش ہوئی اور تھوڑی سی انکوائیری کے بعد میں مطمئن سی ہو گئی۔۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا میں اور زرینہ ادھر ادھر دیکھ کر ہسپتال کی چار دیوار پھلانگ رہیں تھیں ۔دیوار پھلانگ کر میں نے ہسپتال کے اندر نظر دوڑائی ۔۔۔تو ہر طرف ویرانی ۔۔۔اور سناٹے کا راج تھا۔۔۔۔ ابھی میں ہسپتال کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ زرینہ مجھے لیکر کر ایک سائیڈ پر بنے دو تین کمروں کے شیڈ کی طرف لے آئی ۔۔۔ اور پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ ہم سے پہلے ہی اس کمرے میں اظہر اور اس کے ساتھ ایک اور ہینڈ سم سا لڑکا کھڑا تھا ۔۔۔ جسے میں نہیں جانتی تھی لیکن اس دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ یہی زرینہ کا"یار" ہو گا۔۔۔ تھوڑی علیک سلیک کے بعد اظہر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ان سے کہنے لگا۔۔۔۔ اچھا جی آپ یہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرو ۔۔۔میں اور صبو ۔۔ دوسرےکمرے میں جا رہے ہیں ۔۔ ا س کے ساتھ ہی ہم دونوں اس شیڈ کے اگلے کمرے میں آ گئے ۔۔
۔۔۔۔ وہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جہاں کسی زمانے میں جانوروں کو باندھا جاتا ہو گا ۔۔ لیکن اس وقت وہ بلکل خالی تھا۔۔۔۔ بس ایک طرف کافی سارا گھاس پھونس پڑا ہوا تھا۔۔۔۔ ابھی میں کمرے کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اظہر نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہنے لگا ۔۔ساڈے ول تک سجنا ۔۔۔(میری جان میری طرف بھی دیکھو) اس جیسے ہی میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے آگے بڑھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرے گال کو چوم کر بولا ۔۔ کہ۔۔۔ کل کیوں بھاگ گئی تھی؟ تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔۔ اس پر وہ کہنے لگا۔آج نہیں بھاگنا ۔۔تو میں نے بڑی شوخی کے ساتھ اس سے پوچھا وہ کیوں جی؟ تو وہ ایک بار پھر میرے گال کو چوم کر بولا کہ وہ اس لیئے جی کہ یہاں کوئی آتا جاتا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میرے گرد اپنے باز وؤں کی گرفت مضبوط کی اور ۔۔ میری چھاتیوں کے ساتھ اپنی چھاتی کو پریس کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ وعدہ کرو ۔۔۔آج تو نہیں بھاگو گی نا۔۔۔ تو میں نے اس کی باہنوں میں کسماتے ہوئے کہا ۔۔ کہ نہیں میری جان ۔۔۔۔آج میں ادھر ہی ہوں تمہارے پاس!!۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا اور اپنے منہ کو میرے کان کے قریب لاکر بولا۔۔ آئی لو یو میری جان ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے منہ کو تھوڑا نیچے کیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔اور اس کے فوراً بعد اس نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کی زبان میری زبان کے ساتھ ٹکرانے لگی۔۔۔۔اس ٹکراؤ کے ساتھ ساتھ اس کا ایک ہاتھ میری چھاتیوں پر چلا گیا اور وہ بڑی آہستگی کے ساتھ میری چھاتیوں کو دبانے لگا۔جس سے مجھے مزہ ملنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کو چوسنے کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ میرے سینے پر پھیرنے سے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت جنم لے رہی تھی۔۔اور اسی کیفیت کے زیرِ اثر میں بھی اس کے ساتھ چپک کر لگ گئی تھی ۔۔۔۔ اسی دوران مجھے اپنی دونوں رانوں کے بیچ اس کا سانپ لہراتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔اور ابھی میں اس صورتِ حال کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اچانک اس کا ایک ہاتھ سرسراتا ہوا میرے قمیض کے نیچے آیا ۔۔۔اور ۔۔۔ میرے آزار بند کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس کا ہاتھ میرے آزار بند تک پہنچتا میں نے ایک دم سے اسکے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس سے الگ ہو گئی۔۔۔ تب اس نے بڑے پیار سے میری طرف دیکھا اور نشیلی آواز میں بولا ۔۔۔۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔۔پلیزززززززززز۔۔۔ تو میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ نہیں ۔۔اظہر ۔۔۔ شادی سے پہلے میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی ۔حالانکہ کہ اس وقت اندر سے میری دل یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔ کہ اس کا میری رانوں سے ٹکرانے والا سانپ جلدی سے میری چوت میں چلا جائے لیکن ۔۔محض۔اسے یہ جتانے کہ لیئے کہ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں میں نے اس سے شادی والی بات کی تھی ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو اس نے میری منتیں کرنا شروع کر دیں ۔ لیکن جب میں نے اسے تڑپانے کی خاطر صاف انکار کیا تو اچانک ہی اس کا رویہ تبدیل ہو گیا ۔۔۔ اور اب اس نے ۔ زبردستی مجھے اپنی باہنوں میں کس لیا ۔۔۔اور مجھے دبوچ کر اور میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور پھر مجھ پر کسنگ کی بھر مار کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ دو گی کیسے نہیں سالی ۔۔۔کہ میں نے تم پہ بہت خرچہ کیا ہوا ۔۔ہے ۔۔
میں نے اس سے کل آنے کا وعدہ تو کر لیا تھا لیکن دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ کل اس سے کیسے ملوں گی؟ پھر خیال آیا کہ اگر عاشی ۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی میں دل ہی دل میں عاشی کو مزید بیمار رہنے کی دعائیں کرنے لگی۔۔۔ہر چند کہ اظہر کے ساتھ ملاقات میں ۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔ لیکن خاص کر مجھے اس سے گلے ملنے کا بہت مزہ آیا تھا ۔۔۔اور جو اس نے میرے گال کو چاما تھا۔۔۔وہ تو اور بھی "صوادلہ" تھا۔۔۔۔۔چنانچہ اس دن میں عاشی کے مزید بیمار رہنے کی دعائیں مانگتی رہی۔۔۔ اور میری یہ دعا ۔۔۔ یوں قبول ہوئی کہ ۔۔۔ اسی شام میرے چاچے کو اطلا ع ملی کہ عاشی کے نانا پر فالج کا اٹیک ہوا ہے ۔۔ اس اطلاع کا ملنا تھا کہ عاشی اور اس کی اماں بمعہ میری ماں کے فوراً ہی نانا کی خبر گیری کے لیئے روانہ ہو گئے۔۔۔ عاشی جاتے جاتے مجھے چار دن کی چھٹی کی درخواست بھی دے گئی تھی ۔
آپ نے وہ محاورہ تو ضرور سنا ہو گا ۔۔۔ کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔۔۔۔ تو اس وقت یہ محاور مجھ پر بڑا فٹ نظر آ رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ ایک تو چوکیدار یعنی کہ عاشی نہیں تھی اور دوسری گھر لیٹ آنے پر باز پرس کرنے والی میری اماں ۔۔۔۔بھی تین چار دن کے لیئے گھر سے چلی گئی تھی۔۔۔۔ اس لیئے اب میں بے غم ہو کر اپنے محبوب یعنی کہ اظہری سے مل سکتی تھی۔۔۔
چنانچہ اگلے دو تین دن میں اور اظہری ہسپتال کے پیچھے اُگی ہوئی انہیں بڑی بڑی جھاڑویوں میں ملتے رہے ۔۔اور ان دو تین ملاقاتوں میں ۔۔۔ میرا ڈر خاصہ دور ہو گیا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ آخری ملاقات میں اس نے جاتی دفعہ میرے ساتھ لپ کسنگ بھی کی تھی۔۔۔ اور یہ پہلی دفعہ تھی کہ کسی مرد کے ہونٹوں نے میرے کنواروں ہونٹوں کو چھوا تھا ۔۔ اور مجھے اس کے ہونٹوں کا لمس اتنا اچھا لگا تھا ۔ کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ میرے ہونٹ چوستا جائے ۔۔۔۔ ہوا کچھ یوں تھا ۔۔کہ جب میں نے اظہری سے وداع لینے کا کہا تو حسبِ معمول اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔اور پھربجائے گالوں پر کس کرنے کے اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔۔ اور اس کے ہونٹوں کا میرے ہونٹوں سے مس ہونا تھا کہ میرے اندر ایک عجیب سی مستی بھر گئی ۔۔۔۔ ا ور اسی مستی کے عالم میں ۔۔۔ میں اس کے اور قریب ہو گئی۔۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک وہ میرے ہونٹوں کو چوستا رہا ۔۔۔۔۔پھر اچانک ہی اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی۔۔۔اُف۔ف۔فف۔ف۔ف۔ف۔۔ف۔۔۔۔۔ اس کی زبان کا میری زبان سے ٹکرانا تھا۔۔۔ کہ میرے سارے وجود میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔۔اوراس سے قبل کہ میں اپنے حواس کھوبیٹھتی ۔۔۔ میں فوراً اس سے الگ ہو گئی ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ بھاگ کر واپس چلی گئی۔۔۔۔۔ بھاگی اس لیئے کہ میرے اندر شہوت نے سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔۔۔اور مجھے معلوم تھا کہ اگر اس نے ایسے ہی اپنی زبان کا میری زبان سے ٹکراؤ جاری رکھا تو ۔۔۔۔میری شہوت بے قابو ہو جائے گی ۔۔۔۔۔اور اگر میری شہوت بے قابو ہو گئی تو۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیئے میں وہاں بھاگ آئی تھی۔۔۔
یہ اس دن کا واقعہ ہے کہ جس کے اگلے دن امی لوگوں نے واپس آنا تھا ۔۔۔اس دن کلاس میں بیٹھی ہوئی زرینہ نے مجھ سے کہا۔۔۔ کل بڑی بھاگی جا رہی تھی۔۔ خیر یت تو تھی ؟؟؟ تو میں نے اس سے کسنگ کے بارے میں بتایا ۔۔۔تو سن کر اس نے ایک جھرجھری سی لی اور کہنے لگی۔۔۔ یار زبانوں کے ٹکراؤ سے تو واقعی ہی بڑی آگ لگ جاتی ہے ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ کتنا مزہ آیا تھا ؟ تو میں نے سرخ ہوتے ہوئے کہا کہ مت پوچھ یار۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی ۔۔۔صبو تیرے ہونٹ بڑے جوسی اور سیکسی ہیں ۔پھر کہنے لگی۔۔۔ جب تم کو اتنا مزہ مل رہا تھا تو پھر مزے کو جی بھر کے لینا تھا ۔۔۔۔ یوں بیچ میں چھوڑ کے کیوں بھاگ آئی تھی؟۔۔۔ تو میں نے اس سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔۔۔یار مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں کوئی آ نا جائے۔۔۔ تم کو تو پتہ ہے کہ وہ اوپن سی جگہ ہے جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی آ سکتا ہے ۔۔۔ یہ سن کر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی کہتی تو ٹھیک ہے یار۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے میرے ہونٹوں پراپنی انگلی رکھی اور میرے نرم ہونٹوں پر پھیر کر بولی ۔۔سچ کہہ رہی ہوں صبو۔ ۔۔ میرے خیال میں تو تم سے زیادہ ہونٹوں کی کسنگ کا ۔۔۔اظہری کو مزہ آیا ہو گا۔۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ چلو آج جی بھر کے اس کے ساتھ کسنگ کر لینا۔۔۔ آج میں تم سے اس کی ملاقات ایک ایسی جگہ کروؤں گی کہ جہاں کوئی ڈر جھکا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کیا مطلب؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ اوہ ۔۔سوری یار میں تم کو ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی تھی کہ آج ہم لوگ ہسپتال کے اندر ملیں گے؟ اس کی بات سن کر میں حیران ہو گئی اور اس سے بولی ۔۔۔
ہسپتال کے اندر لیکن وہ کیسے ؟ اس کے تو گیٹ پر تالہ ہوتا ہے؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ بھولے بادشاہو ۔۔ تالا تو ہسپتال کے سامنے اس کے مین گیٹ پر ہوتا ہے ۔۔۔۔ پیچھے تو نہیں نا۔۔۔۔۔اس پر میں نے نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا میں تم کو تفصیل سے بتاتی ہوں پھر کہنے لگی۔۔۔ سنو صبو ۔۔۔ ڈنگر ہسپتال کی پچھلی دیوار کی کچھ اینٹیں ۔۔کافی عرصہ سے اکھڑی ہوئی ہے ۔۔اس لیئے اکثر میں اور میرا یار اس دیوار کو پھلانگ کر اندر کمروں میں ملتے ہیں ۔۔۔ وہاں نہ تو کسی کے آنے کا ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی آتا ہے۔۔اس لیئے آج میں اپنے یار سے اور تم اپنے یار سے ۔۔۔ہسپتال کی بیک سائیڈ سے اسی ٹوٹی دیوار کو پھلانگ کر ملیں گے۔۔۔۔ پھر آنکھ بند کر کے بولی ۔۔۔ وہاں کسی کا ڈر بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ جتنی دیر مرضی ہے اپنے یار کے ساتھ کسنگ کرنا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں بڑی خوش ہوئی اور تھوڑی سی انکوائیری کے بعد میں مطمئن سی ہو گئی۔۔۔۔۔

دوپہر کا وقت تھا میں اور زرینہ ادھر ادھر دیکھ کر ہسپتال کی چار دیوار پھلانگ رہیں تھیں ۔دیوار پھلانگ کر میں نے ہسپتال کے اندر نظر دوڑائی ۔۔۔تو ہر طرف ویرانی ۔۔۔اور سناٹے کا راج تھا۔۔۔۔ ابھی میں ہسپتال کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ زرینہ مجھے لیکر کر ایک سائیڈ پر بنے دو تین کمروں کے شیڈ کی طرف لے آئی ۔۔۔ اور پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ ہم سے پہلے ہی اس کمرے میں اظہر اور اس کے ساتھ ایک اور ہینڈ سم سا لڑکا کھڑا تھا ۔۔۔ جسے میں نہیں جانتی تھی لیکن اس دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ یہی زرینہ کا"یار" ہو گا۔۔۔ تھوڑی علیک سلیک کے بعد اظہر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ان سے کہنے لگا۔۔۔۔ اچھا جی آپ یہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرو ۔۔۔میں اور صبو ۔۔ دوسرےکمرے میں جا رہے ہیں ۔۔ ا س کے ساتھ ہی ہم دونوں اس شیڈ کے اگلے کمرے میں آ گئے ۔۔
۔۔۔۔ وہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جہاں کسی زمانے میں جانوروں کو باندھا جاتا ہو گا ۔۔ لیکن اس وقت وہ بلکل خالی تھا۔۔۔۔ بس ایک طرف کافی سارا گھاس پھونس پڑا ہوا تھا۔۔۔۔ ابھی میں کمرے کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اظہر نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہنے لگا ۔۔ساڈے ول تک سجنا ۔۔۔(میری جان میری طرف بھی دیکھو) اس جیسے ہی میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے آگے بڑھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرے گال کو چوم کر بولا ۔۔ کہ۔۔۔ کل کیوں بھاگ گئی تھی؟ تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔۔ اس پر وہ کہنے لگا۔آج نہیں بھاگنا ۔۔تو میں نے بڑی شوخی کے ساتھ اس سے پوچھا وہ کیوں جی؟ تو وہ ایک بار پھر میرے گال کو چوم کر بولا کہ وہ اس لیئے جی کہ یہاں کوئی آتا جاتا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میرے گرد اپنے باز وؤں کی گرفت مضبوط کی اور ۔۔ میری چھاتیوں کے ساتھ اپنی چھاتی کو پریس کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ وعدہ کرو ۔۔۔آج تو نہیں بھاگو گی نا۔۔۔ تو میں نے اس کی باہنوں میں کسماتے ہوئے کہا ۔۔ کہ نہیں میری جان ۔۔۔۔آج میں ادھر ہی ہوں تمہارے پاس!!۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا اور اپنے منہ کو میرے کان کے قریب لاکر بولا۔۔ آئی لو یو میری جان ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے منہ کو تھوڑا نیچے کیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔اور اس کے فوراً بعد اس نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کی زبان میری زبان کے ساتھ ٹکرانے لگی۔۔۔۔اس ٹکراؤ کے ساتھ ساتھ اس کا ایک ہاتھ میری چھاتیوں پر چلا گیا اور وہ بڑی آہستگی کے ساتھ میری چھاتیوں کو دبانے لگا۔جس سے مجھے مزہ ملنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
زبان کو چوسنے کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ میرے سینے پر پھیرنے سے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت جنم لے رہی تھی۔۔اور اسی کیفیت کے زیرِ اثر میں بھی اس کے ساتھ چپک کر لگ گئی تھی ۔۔۔۔ اسی دوران مجھے اپنی دونوں رانوں کے بیچ اس کا سانپ لہراتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔اور ابھی میں اس صورتِ حال کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ اچانک اس کا ایک ہاتھ سرسراتا ہوا میرے قمیض کے نیچے آیا ۔۔۔اور ۔۔۔ میرے آزار بند کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس کا ہاتھ میرے آزار بند تک پہنچتا میں نے ایک دم سے اسکے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس سے الگ ہو گئی۔۔۔ تب اس نے بڑے پیار سے میری طرف دیکھا اور نشیلی آواز میں بولا ۔۔۔۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو ۔۔۔پلیزززززززززز۔۔۔ تو میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ نہیں ۔۔اظہر ۔۔۔ شادی سے پہلے میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی ۔حالانکہ کہ اس وقت اندر سے میری دل یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔ کہ اس کا میری رانوں سے ٹکرانے والا سانپ جلدی سے میری چوت میں چلا جائے لیکن ۔۔محض۔اسے یہ جتانے کہ لیئے کہ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں میں نے اس سے شادی والی بات کی تھی ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو اس نے میری منتیں کرنا شروع کر دیں ۔ لیکن جب میں نے اسے تڑپانے کی خاطر صاف انکار کیا تو اچانک ہی اس کا رویہ تبدیل ہو گیا ۔۔۔ اور اب اس نے ۔ زبردستی مجھے اپنی باہنوں میں کس لیا ۔۔۔اور مجھے دبوچ کر اور میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور پھر مجھ پر کسنگ کی بھر مار کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ دو گی کیسے نہیں سالی ۔۔۔کہ میں نے تم پہ بہت خرچہ کیا ہوا ۔۔ہے ۔۔
No comments:
Post a Comment