وہ جو کوئی بھی تھا۔۔۔ وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے عظمیٰ باجی کے مین گیٹ کی طرف لے گیا ۔۔اور وہاں پہنچتے ساتھ ہی وہ اپنی کرخت آواز میں ۔۔میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔خبردار اگر تم نے کوئی حرکت کی تو۔۔۔!!!!!!!!!۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور دانت پیستے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔ خانہ خراب کا بچہ۔۔۔ انار خان کے ہوتے ہوئے تم نے اس محلے میں چوری کی
جرات کیسے کی؟ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے منہ پر لپٹی ہوئی چادر کو کھینچ کر نیچے کر لیا۔۔۔ اور ۔۔پھر جیسے ہی اس کی نگاہ میرے چہرے پر پڑی ۔۔۔وہ۔۔۔ ایک دم پریشان ہو گیا ۔۔۔ اور مجھے دیکھ کر حیرت بھرے لہجے میں کہےے لگا۔۔۔ ۔۔۔ہما ۔۔۔ میم صاحب آآآآآآپ ۔۔؟؟؟؟؟؟ آپ ادھر کیا کر رہی تھی؟؟ ۔۔ یہ ہمارےمحلے کا سیکورٹی گارڈ تھا ۔انار خان ۔۔جس کے سامنے میں اس وقت مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔حقیقتاً وہ مجھے اس حلیئے میں دیکھ کر اچھا خاصہ خاصہ پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ میرے اس عمل کو کیا نام دے؟؟ ۔وہ کچھ دیر تک تو۔۔۔سوچتا رہا پھر ۔ تنگ آ کر وہ مجھے سے بڑی سختی سے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں ۔۔۔سچ سچ بتاؤ کہ تم ادھر کیا کرنے آئی تھی؟ ۔۔ اور کھڑکی سے لگی کیا کر رہی تھی؟ مجھے پر اس وقت اس قدر گھبراہٹ اور شرمندگی طاری تھی کہ میں نے اس کے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔اس لیئے میں۔۔ اس کے سامنے مجرموں کی طرح سر جھکائے چپ چاپ کھڑی رہی اس نے چند سیکنڈ تک میرے جواب کا انتظار کیا پھر اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور عظمیٰ کی کھڑکی کے پاس لے گیا ۔۔۔اور میرے ساتھ ہی کھڑے ہو کر کھڑکی کی دوسری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس وقت وہاں کی صورتِ حال یہ تھی کہ عظمٰی باجی باہر کے حالات سے بے خبر ۔۔۔گھوڑی بنی ہوئی تھی اور بھا اس کو پیچھے سے چود رہا تھا۔۔۔۔ اور اتفاق ایسا تھا کہ دونوں کے چہرے دوسرے طرف( ہمارے بر عکس دوسری سائیڈ پر) ہونے کی وجہ سے انار خان ان کو ٹھیک سے نہ پہچان نہ سکا۔( یا اگر اس نے پہچان بھی لیئے تھے تو اس نے مجھ پر کچھ ظاہر نہ کیا تھا)۔۔کھڑکی سے لگ کر اس نے بس ایک جھلک ہی ان کی دیکھی اور پھر اس نے مجھے بازو سے پکڑا ۔۔۔ اور پہلےکی طرح کھڑکی سے دور لے جا کر بڑے غصے میں کہنے لگا ۔۔۔۔ اچھا تو تم یہ گندہ سین دیکھ رہی تھی ۔؟ اور کہنے لگا اپنی عمر دیکھو اور کام دیکھو ۔۔۔ ۔۔۔تم کو ایسی چیزیں دیکھتے ہوئے شرم نہیں آتی ۔۔۔ ؟ اُس ٹائم وہ بڑے غصے میں لگ رہا تھا ۔۔۔ پھر پتہ نہیں اس کو کیا ہوا کہ اس نے دوبارہ مجھے بازو سے پکڑا اور کہنے لگا۔۔۔صبر کر ۔۔۔۔ میں تمھارے کرتوت میاں صاحب (ابا) کو بتاتا ہوں ۔۔ ابا کو نام سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے اور میں نے بڑی پریشانی سے کہا ۔۔۔ پلیزززززز ۔۔ خان صاحب ایسا نہ کریں۔۔ ۔۔۔ تو وہ اسی درشت لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔ دیکھو تمھارا ۔۔والد کس قدر شریف آدمی ہے اسی طرح تمہار والدہ اور گھر کا دوسرا لوگ کتنے اچھے ہیں اور ایک تم۔۔ہو کہ لڑکی ہو کر بھی۔۔۔ اس کے بعد اس نے اپنا فقرہ ادھورا چھوڑا اور ۔۔۔مجھے بازو سے پکڑ کر کہنے لگا ۔۔۔تم ابھی میرے چلو ۔۔۔ میں تمھارے والد کو سب حقیقت بتاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اورمجھے پکڑ کر اپنے ساتھ زبردستی لے جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میری حالت غیر ہو رہی تھی ۔۔۔ اور مجھے گھر کےساتھ ساتھ اب۔۔۔ عظمیٰ باجی کے گھر کا بھی ڈر لگنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میر ے اندازے کے مطابق اس وقت تک بھا کو عظمیٰ باجی کی چدائی سے فارغ ہو جانا چاہیئے تھا ۔۔۔ پھر میں سوچنے لگی کہ اگر اوپر سے بھا ۔بھی آ گیا تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ یہ سوچ کر میری تو جان ہی نکل گئی اور میں نے بڑے ہی عاجزانہ لہجے میں خان صاحب سے درخواست کی کہ خان صاحب پلیزززززززززز۔۔ مجھے چھوڑ دیں آ ئیندہ میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گی۔۔۔ میرا لہجہ اتنا عاجزانہ تھا کہ چلتے چلتے خان وہیں رُک گیا ۔۔اور بازو سے پکڑے پکڑے دوبارہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔مجھے گیٹ کی اوڑھ میں لے گیا ۔۔ یہاں آ کر اس نے میرا بازو چھوڑا ۔۔ اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔ اگر تم کہتی ہو تو ٹھیک ہے۔۔۔ ہم تم کو تمھار ا گھر نہیں لے جاتا ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ لیکن بدلے میں تم ہم کو کیا دے گا؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔ آپ جتنے پیسے کہتے ہیں میں دینے کو تیار ہوں ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر ۔۔۔ پراسرا ر لہجے میں بولا۔۔۔۔ اور اگر ہم تم سے ۔۔۔ پیسے نہ لینا چاہوں تو۔۔؟ خان صاحب کی یہ بات سُن کر میں تھوڑی سی پریشان ہو گئی اور خان صاحب کی طرف منہ کر کے بولی ۔۔وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔ خان صاحب پھر آپ کیا چاہتے ہو؟۔۔آپ کو جو چاہیئے میں دوں گی۔۔ تو وہ بدستور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنےلگا۔۔۔ سوچ لو۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا جی میں نے سوچ لیا ہے ۔۔ آپ بس اپنی ڈیمانڈ بتاؤ؟ ۔۔ میری بات سُن کر اس نے بڑ ی ہی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔اور اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ اس بات پہ چپ رہنے کے لیئے تم نے ہم کو خوش کرنا ہو گا ۔۔۔۔ ۔۔۔ خان کے منہ سے نکلی ہوئی یہ بات میرے بلکل بھی پلے نہ پڑی اور میں نےاس سے کہا ۔۔۔ آپ کو کیسے خوش کرنا ہو گا؟؟۔۔۔ ۔۔۔ تو پہلی دفعہ میں نے خان کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی ننگی ہوس دیکھی ۔۔۔اس نے میری طرف بھوکی نظروں سے دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئےکہنے لگا۔۔۔ویسے ہی خوش کرنا ہو گا جیسا کہ ۔۔۔ (اس نے کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) وہ بی بی لوگ ۔۔۔اپنے دوست کو خوش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ خان کی بات سُن کر میرے سارے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی ۔۔۔ اور پھر پتہ نہیں کہاں سے اچانک ۔۔ ایک دم۔۔۔۔سے بہت ساری شہوت میرے من میں اترآئی۔۔۔ جو فوراً ہی میرے سارے بدن میں پھیل گئی۔۔۔ اور ۔۔اس کے ساتھ ہی خان سے چُدنے کی مجھ میں شدید خواہش پیدا ہو گئی۔۔۔ اوریہ خواہش اس قدر شدید تھی ۔۔کہ لمحے کے ہزراویں حصے میں ۔۔میری چوت ۔ نیچے سے گیلی ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ لیکن میں نے اپنی اس حالت کی بھنک خان صاحب کو نہ پڑنے دی ۔۔۔۔ اور بظاہر بڑی شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے بولی ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہو ؟ آپ ہوش میں تو ہو۔۔۔۔ تو میری بات سُن کر اس نے دوبارہ سے میرا بازو پکڑا اور کہنے لگا۔۔۔ خوچہ ٹھیک ہے۔۔۔ اگر تمھارا مرضی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ۔۔۔ لیکن ہم تمھارے والد کو یہ بات ضرور بتائے گا۔۔۔۔ اور مجھے لیکر چلنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ یہاں میں نے پھر تھوڑا سا ڈرامہ کیا ۔اور اس سے کہنے لگی دیکھو خان آپ کو جتنے پیسے چاہیئں میں دینے کے تیار ہوں ۔۔۔ لیکن۔۔پلیزززز۔۔۔۔۔۔ جبکہ اندر سے دل تو میرا یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔ یہ بندہ ابھی کے ابھی میرے اندر اپنا لن ڈال دے ۔۔۔ لیکن ظاہر ہے میں اس کو اپنی اندرونی حالت کا کسی صورت بھی نہیں بتا سکتی تھی۔۔۔ ۔دوسری طرف خان مجھے بازو سے پکڑ کر جب تھوڑا دور لے گیا تو۔۔ پھر میں نے سوچا یہی وہ وقت ہے ۔۔۔اور یہ سوچ کر میں خان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک دم رُک گئی ۔۔۔
اور ۔۔سوچنے کی اداکاری کرنے لگی۔۔۔اور کچھ سوچنے کے بعد میں نے ۔۔ اس کے سامنے ایسا شو کیا کہ جیسے میں یہ کام انتہائی ۔۔۔۔ مجبوری کے عالم میں کر رہی ہوں اور اپنا سر جھکا کر اس سے کہنے لگی ۔وہ خان صاحب۔۔وہ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ میری رضا مندی جاننے کو بے تاب تھا اور لیئے جب میں سر جھکائے ۔۔وہ وہ ۔کی گردان ۔ کرنے لگی ۔۔تو ان نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا چہرہ اوپر کیا ۔۔۔۔اور اپنی ہوس بھری نظریں مجھ پر گاڑتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ جلدی بولو ۔۔۔ ہم کو اور بھی کام ہیں ۔۔۔ تو میں نے ہارے ہوئے جواری کی طرح ۔۔۔ مرے ہو ئے لہجے میں اس سے کہا ۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ اور بات۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ کوئی مجبوری نہیں ہے بی بی جی۔۔۔۔۔۔ اگر تم نہیں کرنا چاہتی تو تمھارا مرضی۔۔ ہم تم کو مجبور نہیں کرے گا ۔۔۔ پھر مجھے دھمکی لگاتے ہوئے کہنے لگا ۔۔ ہم سب مہمانوں کے سامنے تمہارا یہ بات بتائے گا۔۔ ۔۔۔اور ایک دفعہ پھر مجھے گھسیٹنے لگا۔۔۔۔۔آخر تھک ہار (بظاہر) کر میں نے خان کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ۔۔ آپ مجھے کہاں لے جائیں گے۔۔ ؟ میری بات سُن کر خان کی باچھیں کھل گئیں اور بولا ۔۔۔ ہمارے کمرےمیں چلو ۔۔۔ تو میں نے ڈرتے ہوئے کہا کہ آپ کے گھر ؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا۔۔ڈرنے کا کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ تم ۔۔ ہمارا ساتھ ہمارے کمرے میں ۔چلو۔۔۔ ۔۔۔ اس وقت سب سے محفوظ جگہ وہی ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ بنا کوئی بات کیئے مجھے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔۔ اور سارے راستے ۔۔ میرے جزبات ۔ اپنے ساتھ ہونے والے اس اچانک سیکس کے بارے میں سوچ سوچ کر بے قابو ہوتے جا رہے تھے ۔۔اور نیچے میری پھدی پر چیونٹیاں سی رینگ رہیں تھیں ۔۔۔اور ۔گرم تو میں بہت پہلے عظمیٰ باجی کا سین دیکھ کر پہلے سے ہی ہو چکی تھی ۔۔ پھر اپنے ساتھ ۔۔سیکس کا خیال آتے ہی میرے زہن میں ۔۔۔ خان کا لن گھوم گیا ۔۔۔اور میں سوچنے لگی ۔۔۔ کہ پتہ نہیں اس کا لن کتنا بڑا ۔اور کتنا موٹا ۔۔ہو گا۔۔۔۔ اور جوں جوں میں خان کے لن کے بارے میں سوچتی جا رہی تھی توں توں ۔۔۔۔۔ میں اندر ہی اندرمزید گرم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ خان کے لن کے بارے میں سوچتے سوچتے ۔۔۔ مجھے پھر سے عظمیٰ باجی یاد آگئی ۔۔۔ عظمیٰ باجی کا یاد آنا تھا کہ ۔۔ میرے زہن میں عظمیٰ باجی کا بھا سے کیا گیا سیکس سین ایک دفعہ پھر گھوم گیا ۔۔اور عظمیٰ کی پھدی اور بھا کے لن کا سوچتے ہی ۔۔۔۔ میری چوت ۔۔۔گرم سے گرم تر ہونے لگی۔۔۔۔ اس طرح ۔۔۔۔ خان کے گھر تک پہنچتے ۔۔ پہنچتے ۔۔۔میری پھدی مکمل طور پر بھیگ چکی تھی۔۔اور مجھ سے ۔کھل بند ہو ہو کر ۔۔خان کے لن کا تقاضہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔
انار خان سکیورٹی گاڑد جسے ہم سب خان صاحب ہی کہتے تھے علاقہ غیر سے اس کا تعلق تھا اور ۔ہمارے محلے میں ہی رہتا تھا اور اسے رہنے کےلیئے ۔۔ ہمارے ہی محلے ہی کے ایک شخص جوکہ وکیل تھا ۔۔۔ نے اس کو اپنی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر کا ایک کمرہ دیا ہوا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ اور یہ سرونٹ کوارٹر ان وکیل صاحب کے گھر کے عین پیچھے واقعہ تھا۔اور اس سرونٹ کوارٹر تک پہنچنے کے لیئے ایک لمبی سی راہداری سے گزرنا پڑتا تھا۔جو کہ انہوں نے نوکروں کی آمد و رفت کے لیئے ایک بنائی ہوئی تھی ۔۔۔ اور یہ راہداری چونکہ وکیل صاحب کے بیڈ روم کے پاس سے گزرتی تھی۔۔اور وہاں سے گزرنے والے ہر فرد کو وہ لوگ اندر سے باآسانی آتے جاتے دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔چنانچہ عظمیٰ باجی کے گھر سے چلتے ہوئے جب ہم دونوں وکیل صاحب کے گھر کے پاس پہنچے تو دیکھا ۔۔۔ کہ وکیل صاحب کے گھر کی ساری لائٹیں آن تھیں ۔۔ جن کو دیکھ کر میں پریشان ہو گئی اور خان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ لیکن میں نے خان صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی کے آثار نہ دیکھے۔۔۔ وہ وکیل کے گھر کے پاس جا کر رُک گیا اور مجھے ایک طرف کر کے کہنے لگا میں اندر جا کر ان کا مین سوئچ آف کروں گا ۔۔۔۔ اور جیسے ہی اندھیرا ہو ۔۔۔ تم نے گیٹ کے ساتھ والی راہداری سے ہوتے ہوئے سامنے کے پہلے کمرے میں چلے جانا ہے۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ جیسا ہی تم گیٹ کراس کرو گے میں مین سوئچ کو آن کر دوں گا ۔۔۔ ۔۔۔اس لیئے تم نے جتنی جلدی ہو سکے اندھیرا ہوتے ہی تیزی سے اندر جانا ہے۔۔۔یہ کہہ کر وہ وکیل صاحب کے گھر جانے لگا۔ اور جاتے جاتے ۔۔۔ اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور دبی دبی۔۔۔۔ آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔ اور اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو۔۔۔ پھر تیرا خیر نہیں۔۔۔۔ اب میں اس کو کیا بتاتی کہ میں خود اس سے چدنے کو تیار ہوں ۔۔ ورنہ بھاگنا ہوتا ۔۔۔۔ تو میں کب کی بھاگ چکی ہوتی ۔۔۔لیکن اس کی بات سُن کر میں چپ رہی ۔۔ وہ کچھ دیر تو میری طرف دیکھتا رہا ۔۔۔پھر وکیل صاحب کے گھر میں داخل ہو گیا ۔۔۔
جیسے ہی خان صاحب نے مین گیٹ کراس کیا۔۔۔ اس کے چند یہی سیکنڈ کے بعد ۔۔۔ اچانک وکیل صاحب کی ساری کوٹھی اندھیرے میں ڈوب گئی۔۔۔ ادھر میں پہلے سے ہی تیار تھی اس لیئے جیسے ہی اندھیرا ہو ا ۔۔۔ میں تیزی سے گیٹ کے اندر داخل ہوئی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی۔۔۔ وکیل صاحب کی راہداری کو عبور کرتے ہوئے ۔۔۔ سرونٹ کوارٹر کے سامنے پہنچ گئی ۔۔۔ اس وقت میرے نیچے آگ لگی ہوئی ۔۔۔اور میں اپنی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ۔۔۔ خان صاحب کا کمرہ دیکھنے لگی ۔۔ ۔۔۔ لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے خان کا کمرہ نظر نہ آ رہاتھا ۔۔۔۔لیکن پھر چند ہی سکینڈ کے بعد وکیل صاحب کے گھر کی ساری لائیٹس جل اُٹھیں ۔۔اور پھر اگلے چند لمحوں میں خان میرے پاس کھڑا تھا ۔۔۔۔ اور پھر وہ اپنے کمرے کی طرف گیا اور دروازے کی کنڈی کھول کر مجھے اشارہ کیا اور میں بھاگ کر اس کے کمرے میں پہنچ گئی۔۔۔ جیسے ہی میں اس کے کمرے میں پہنچی۔۔۔اس نے جلدی سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا کر میری طرف دیکھتے ہوئے مجھے ایک پرانی سی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔ ۔۔۔۔
کرسی پر بیٹھ کر میں خان کے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔۔۔ جس کے وسط میں ایک چارپائی پچھی ہوئی تھی ۔۔۔ اور چارپائی پر ایک میلی سی تلائی پڑی تھی ۔۔۔اور ایک طرف ایک گندہ سا کولر بھی پڑا تھا ۔۔۔اور کمرے کے کونے میں ۔۔۔ایک گیس والا چولہا بھی دھرا تھا اور جس کے پاس ایک گندی سی کیتلی اور اس کے پاس دو تین کپ چائے کی پیالیاں پڑیں تھیں ۔۔۔ جبکہ کمرے کے دوسری طرف ایک ٹین کا صندوق رکھا ہوا تھا ۔۔۔ جس کے نیچے دو تین اینٹیں رکھ کر اسے اونچا کیا گیا تھا۔۔۔۔ ابھی میں خان کے کمرے کا مزید جائزہ لے ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں اس کی آواز گونجی ۔۔۔وہ کہہ رہا تھا ۔۔ کیا دیکھ رہا ہے میم صاحب یہ ہم غریب لوگوں کا ٹھکانہ ہے پھر وہ میرے نزدیک آیا ۔۔۔ اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر میں بھی کرسی سے اُٹھ گئی۔۔۔ اور اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔۔ اور کچھ دیر تک مجھے اپنے سینے سے لگا کر دباتا رہا۔۔۔ جیسے ہی اس کی باڈی میری باڈی کے ساتھ ٹچ ہوئی ۔۔۔ میرے سارے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا ۔۔۔۔ لیکن میں نے اس کا اظہار نہیں کیا ۔۔۔ اور اس کے گلے سے لگی رہی۔۔۔۔
گلے سے لگانے کے کچھ در بعد اس نے اپنا منہ نیچے کیا اور دھڑا دھڑ میرے گالوں کے بوسے لینے لگا۔۔۔ اس کے انداز کی گرمی دیکھ کر ۔۔ میں بھی۔۔۔۔ موڈ میں آتی چلی گئی۔۔۔۔ لیکن بوجہ اس سے اس کا اظہار نہیں کیا ۔۔۔ پھر اس کے کچھ دیر بعد اس نے مجھے خود سے الگ کیا اور اپنے بڑے بڑے ہاتھ بڑھا کر ۔۔۔ قمیض کے اوپر سے ہی میرے دونوں مموں کو پکڑ لیا ۔۔اور ان کو دبانے لگا۔۔۔ وہ اس انداز میں میں میرے ممے دبا رہا تھا کہ۔۔۔۔ جس سے مجھے مزہ مل بھی مل رہا تھا اور ہلکا سا درد بھی ہو رہا تھا۔۔۔پھر میرے مموں کو دباتے ہوئے وہ کہنے لگا۔۔۔ واہ۔۔۔ میم صاحب تمہارے مما تو بہت سخت ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے گال کو چوم لیا ۔۔۔اور پھر اس نے میرے ممے بھی چھوڑے اور اپنی شلوار اتارتے ہوئے بولا ۔۔۔تم بھی اپنا ۔۔۔شلوار اتارو۔۔۔ لیکن میں ویسے ہی کھڑی رہی۔۔۔ وہ جب اپنی ساری شلوار اتار چکا تو ۔۔ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔ جلدی سے اپنی شلوار اتارو۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے جان بوجھ کر کچھ ہیچر میچر کی ۔۔۔اور پھر اس کے دوسری تیسری دفعہ کہنے پر میں نے بھی اپنی شلوار اتار دی۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگی ۔اس نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور میرے سامنے اس کو لہرانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔ میرا خیال تھا کہ خان صاحب کا لن جیدے جتنا تو نہیں لیکن اس سے کم کیا ہو گا ۔۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا ۔۔۔ خان کا لن ۔۔جیدے کے لن سے ۔ کافی پتلا تھا ۔۔۔ ہاں لمبائی قدرے ٹھیک تھی۔۔۔ اور اس کے لن کی خاص بات یہ تھی۔۔ کہ خان کے لن کا ٹوپا ۔۔۔۔ٹوپا نہیں بلکہ ٹوپی تھی۔۔۔ پتلے لمبے لن کے آگے ایک تیر کی طرح سے نوک دار ۔۔ پتلی سی ٹوپی تھی۔۔۔۔ خان اپنا لن پکڑے پکڑے میرے پاس آیا ۔۔۔۔اس وقت اس کی نظریں میری گوری گانڈ اورموٹی رانوں پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔ پھر اس نے میری قمیض کو اوپر کیا۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ میری گانڈ کو دیکھنے لگا۔۔ اور ۔۔ پھر اس پر ہاتھ پھیر کر بولا۔۔۔ اوہ ۔۔۔ میم صاحب تمھارا گانڈ تو چھوکرا لوگوں سے بھی اچھا ہے ۔۔۔ پھر اس نے مجھے نیچے جھکنے کو کہا ۔۔۔ اور جب میں نیچے جھکی ۔۔۔۔ تو اس نے میری گانڈ پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیئے اور بولا۔۔اُف تمھارا گانڈ کا ۔گوشت ۔ کتنا نرم ۔۔ ہے۔۔۔۔ بلکل مکھن کی طرح نرم اور ملائم ہے ۔۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھ اور بولا۔۔۔۔۔ چلو اب کام اسٹارٹ کریں ۔۔۔ اور خود چارپائی پر بیٹھ کر کہنے لگا۔۔۔۔ چلو ۔۔ میم صاحب ۔۔۔ خود ہی میرے لوڑے کو اپنی گانڈ میں ڈالو۔۔۔ خان کے منہ سے یہ سن کر کہ وہ میری پھدی نہیں بلکہ گانڈ ۔۔۔ مارے گا ۔۔۔۔۔۔ میں تھوڑی افسردہ ہوئی ۔
۔۔ لیکن ۔۔۔ بولی کچھ نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ بظاہر میں جو بھی کروا رہی تھی ۔۔۔ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ۔۔۔خان کی بلیک میلنگ کی وجہ سے کروا رہی تھی ۔۔۔۔ اس لیئے مجبوراً ۔۔۔چپ رہی۔۔۔۔ اور اس سے بس اتنا کہا کہ ۔۔۔ خان جی پیچھے سے میرا پہلا موقعہ ہے۔۔۔ اس لیئے پلیززززز۔۔۔ میری بات سن کر وہ تھوڑا چونک گیا اور بولا ۔۔۔ پہلے کبھی آپ نے پیچھے سے نہیں کروایا ؟؟۔۔۔؟ تو میں نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نہیں خان صاحب ۔۔ ۔۔یہ میرا پہلا موقعہ ہے۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ میم صاحب گانڈمارنا اور مروانہ بھی ایک نشہ کے مافک ہوتا ہے۔۔۔ ایک دفعہ جب آپ گانڈ مروانے کا عاد ی ہو گیا نا۔۔۔ تو پھر سب سے پہلے آپ لوڑے کو ادھر ہی ڈلواؤ گی۔اسی طرح جو بھی بندہ گانڈ مارنے کا عادی ہو جاتا ہے تو وہ پھر گانڈ ہی مارتا ہے ۔۔اس کے بعد وہ چاپائی سے اُٹھا اور میری طرف بڑھتے ہوئے اس نے میرے سامنے اپنی دائیں ہاتھ کی درمیان والی انگلی کو تھوک گاپ کر اچھی طرح سے گیلا گیا اور پھر مجھے جھکنے کا کہا ۔اس کی بات سُن کر میں نے چارپائی کے کنارے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور اپنی گانڈ کھول دی ۔۔۔اتنے میں خان میرے پیچھے آیا اور ۔۔۔ ۔۔میری گانڈ کا معائنہ کرنے لگا پھر بولا میم صاحب اپنے دونوں ۔۔۔ ٹانگوں کو تھوڑا مزید ۔۔کھولو ۔ تو میں اپنی ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔۔۔۔ اور تب اس نے میری گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو تھوڑا کھولا اور ۔۔پھر اپنا منہ کو میرے سوراخ کے قریب لے گیا۔۔۔ اور پھر میری گانڈ کے سوراخ پر بھی ڈھیر سارا تھوک لگا دیا۔۔۔پھر وہ اوپر اُٹھا اور ایک دفعہ پھر اپنی درمیانی انگلی کو اپنے تھوک سے گیلا کیا ۔۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ اپنی گیلی انگلی کو میری گانڈ کے گیلے سوراخ پر پھیرنے لگا۔اس کا یوں میری گانڈ کے سوراخ پر گیلی انگلی پھیرنا مجھے بڑا اچھا لگا۔۔۔ اور اس کی انگلی ۔۔۔ سے میری گانڈ میں مستی آنے لگی۔۔۔اس کے بعد ۔۔انگلی پھیرتے پھیرتے پہلے اس نے اپنی انگلی کی ایک پور۔۔۔ میرے سوراخ میں داخل کر دی ۔۔۔ اور جیسے ہی اس کی انگلی میری گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوئی ۔۔۔ میرے منہ سے بے اختیار ایک سسکی سی نکلی اور ۔۔۔اور میں سی سی سی۔کرنے لگی ۔۔اور میں نے اپنے سوراخ کے اندر اس کی انگلی کو واضع طور پر محسوس کیا۔۔۔۔ وہ کچھ دیر تک میری گانڈ کے سوراخ میں اپنی انگلی کو گھماتا رہا ۔۔۔۔ پھر اس نے وہ انگلی۔۔۔ باہر نکالی۔۔ اور مجھے کہنے لگا۔۔۔۔ فکر نہ کرو میم صاحب ۔۔ میں نے تمھاری گانڈ کو اچھی طرح سے معائینہ کر لیا ہے ۔۔۔تمھارا ۔۔ گانڈ کا سوراخ بہت لچکدار ، نرم اور ریشمی ہے ۔۔۔ اور اس کا ساخت ایسا ہے کہ ۔ایک دفعہ جب کوئی لوڑا اس کے اندر داخل ہو جائے گا ۔۔تو کچھ دھکوں کے بعد ۔۔۔تمہارا گانڈ اس لوڑے کے لیئے خود بخود جگہ بنا دے گا اور ۔۔ تم لوڑے کو اپنے اندر لیکر مزہ کرو گی۔اور جو تمھارا گانڈ مارے گا ۔۔۔ اس کو بھی بہت مزہ آئے گا۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔میم صاحب میری اس بات کو مزاق نہ سمجھنا ۔۔ کہ ایک لمبے عرصے سے میں گانڈ مار رہا ہوں ۔۔۔ اور میں گانڈ کی ساخت دیکھ کر اپنے تجربے کی بنا پر ۔۔۔۔۔مجھے متاثر کرنے کے لیئے ۔۔ وہ پتہ نہیں کیا کیا بکواس کرتا جا رہا تھا۔۔۔ اور مجھے اپنے گانڈ مارنے کے تجربوں سے آگاہ کر رہا تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی بکواس پرکوئی کان نہ دھرا ۔۔۔ اور ۔۔ اس انتظار میں تھی کہ کب یہ اپنا لوڑا میرے اندر کرے۔۔۔۔
گانڈ کے بارے میں کچھ دیر تک لیکچر دینے کے بعد اس نے مجھے کہا کہ میم صاحب زرا میرا لوڑا تو اپنے ہاتھ میں پکڑو ۔۔۔ اور میں جو کہ اس کی چارپائی پر گھوڑی بنی تھی وہاں سے اُٹھی اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔ ۔اس کا پتلا سا لن بہت گرم تھا۔۔۔ اور جب میں نے اس کو دبایا تو وہ دب گیا۔۔۔ مطلب وہ کافی ڈھیلا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کا لوڑا پکڑے پکڑے خان کی طرف دیکھا تو وہ میری بات کا مطلب سمجھ کر بولا۔۔۔۔ تم سے بات کرتے ہوئے لوڑا تھوڑا ڈھیلا ہو گیا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ ابھی سخت ہو جائے گا ۔۔۔ تم اس کو تھوڑا دباؤ۔۔۔۔ اور میں اس کے لوڑے کو دبانے لگا۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ اس کا لن مزید سخت ہو گیا ۔۔۔ لیکن اس کے لوڑے میں سخت تناؤ ہرگز نہ آیا تھا۔۔۔ بس تھوڑا ڈھیلا پن تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس بات کا اس سے کوئی ذکر نہ کیا ۔۔۔ا ور اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔۔ خان صاحب ۔۔۔ یہ کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔ تو وہ بولا۔۔ ٹھیک ہے تم پہلے کی مافک چارپائی پر ہاتھ رکھ لو۔۔۔ اور میں نے دوبارہ سے اپنے دونوں ہاتھ اس کی چارپائی کے کنارے پر ٹکائے اور اور پہلے کی طرح اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں۔۔۔ اب خان میرے پیچھے آیا اور ۔۔۔ گھٹنوں کے بل ۔۔۔ بیٹھ گیا۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر میری گانڈ کو کھول کر اپنا ۔۔۔ لوڑا ۔۔۔ میرے سوراخ پر رکھ دیا۔۔۔ لیکن اس سے پہلے اس نے۔۔۔ تھوک کی بجائے اس دفعہ ۔۔ میرے سوراخ کو آئیل سے اچھی طر ح چکنا کر لیا تھا ۔۔۔ اور یہ آئیل اس نے میری گانڈ کے اندر تک لگا دیا تھا۔۔۔
جب میری گانڈ اس آئیل سے اچھی طرح چکنی ہو گئی تھی۔۔۔ تو اس نے اپنے ڈھیلے لوڑے کی پتلی سی ٹوپی ۔۔۔ میرے سوراخ پر رکھی اور ہلکا سا دھکا دیا۔۔۔۔باوجود اس کے میرا سوراخ آئیل سے اچھی طرح سے چکنا ہوا۔۔۔ہوا تھا۔۔۔۔ پھر بھی اس کا لوڑا ۔۔۔ جب میرے سوارخ کے اندر داخل ہوا تو ۔۔۔ درد کی ایک شدید لہر اُٹھی ۔۔۔ اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے آری سے میری گانڈ کو چیر دیا ہو۔۔۔ میں نے بہت ضبط کیا ۔۔۔ لیکن میرے منہ سے ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔۔۔۔ اوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بے اختیار خان سے بولی۔۔۔ اُف خان صاحب بہت درد ہو رہا ہے ۔۔۔ اپنے لوڑے کو میری گانڈ سے باہر نکالو۔۔۔۔۔ تو وہ اپنے لوڑے کو بجائے میری گانڈ سے باہر نکالنے کے ۔۔۔۔اسے ۔۔۔ اندر باہر کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ بس تھوڑا ۔۔سا درد۔۔ اور برداشت کر لو۔۔۔۔ ۔ اس کے بعد ۔۔جب میرا ۔۔۔لوڑا ۔۔تمہارے سوراخ میں رواں ہو جائے گا۔۔۔ تو پھر تم کو مزہ ہی مزہ ملے گا۔۔ تو میں نے درد سے کراہتے ہوئے اس کو جواب دیا کہ۔۔۔۔ مجھے نہیں چاہیئے ایسا مزہ۔۔۔ تم بس اپنے لوڑے کو میری گانڈ سے باہر نکالو۔۔۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے لوہے اک موٹا سا پائپ میری گانڈ میں دے دیا ہو۔۔۔۔تو خان بولا ۔۔ میم صاحب اگر زیادہ درد ہو رہا ہے تو اپنی چوت کے دانے کو مسلو۔۔۔ اور میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کی چارپائی کے کنارے سے ہٹایا اور اسے اپنے دانے پر لے گئی۔۔۔ پھدی پر ہاتھ لگایا تو وہ آگ کی طرح تپی ہوئی تھی اور ڈھیروں ڈھیر پانی چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔ میں نے اپنی پھدی کے اس گرم پانی میں اپنی انگلی ۔۔۔بھگوئی ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ اس گیلی انگلی کو اپنے پھولے ہوئے دانے پر لے گئی اور اسے مسلنے لگی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ جیسا کہ خان نے کہا تھا ۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح ہوا۔دانہ مسلنے سے مجھے درد کا احساس کچھ کم ہوا ۔۔۔ اور ۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ جب خان کا لوڑا ۔۔ میری گانڈ میں رواں ہو گیا تھا۔۔۔ تو اب مجھے اس کا گرم لن ۔۔۔ مزہ دینے لگ۔اور میں اپنے دانے کو بے تحاشہ مسلنے لگی۔۔۔۔۔ گو کہ درد اب بھی ہو رہا تھا ۔۔۔ لیکن اب درد سے زیادہ مجھے خان کے لوڑے کا ۔۔ ان۔۔۔ آؤٹ۔۔ مزہ دے ر ہا تھا۔۔۔ اور ابھی خان کو دھکے مارتے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ جیسے ۔۔ میری گانڈ میں ۔۔۔۔ گرم پانی کا سیلاب اتر آیا ہو۔۔۔ خان چھوٹ رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس احساس نے کہ ۔۔۔۔۔ گرم گرم منی میری گانڈ میں داخل ہو رہی ہے ۔۔ مجھے مست کر دیا ا ور میں نے اپنے دانے کو اور بھی تیزی سے مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور ۔۔ میں اپنی گانڈ کو خان کے لوڑے کے ساتھ جوڑ کر بولی۔۔۔ گھسے مارر۔ر۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔اور مارر۔۔۔ میری بات سن کر خان نے اپنی بچھی کھچی طاقت کو جمع کیااور میری گانڈ میں دو چار ذور دار گھسے مارے ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا کہ میری چوت سے بھی گرم پانی کا آتش فشاں نکل رہا ہے ۔۔۔۔اور خان کے ساتھ ہی میں بھی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد خان نے میری گانڈ سے اپنا لوڑا نکلا اور ۔۔۔ کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ جبکہ میں نے پھرتی سے اپنی شلوار پہنی اور اس کی شلوار کو زمین سے اُٹھا کر پکڑاتے ہوئے بولی۔۔۔ کہ جلدی کرو ۔۔۔ خان نے بھی شلوار پہنی اور بولا ۔۔۔۔ تم رکو ۔۔۔ میں باہر جا کر پہلے کی طرح مین سوئچ کو آف کرتا ہوں ۔۔۔ باقی تو تم کو پتہ ہی ہے ۔۔۔ میں نے اوکے کہا اور ۔۔۔ایک دفعہ پھر خود کو کالی چادر سے چھپا لیا۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ کمرے سے باہر آ کر انتظار کرنے لگی۔۔۔ جیسے ہی۔۔۔ لائیٹ آف ہوئی۔۔۔۔ میں ۔دبے پاؤں چلتے ہوئے ۔۔وکیل صاحب کی کوٹھی سے باہر آگئی۔۔۔۔اور پھر گھر آ کر سکھ کا سانس لیا۔۔۔ پھر اچانک مجھے اپنی گانڈ میں پڑی خان کی منی کا خیال آیا اور میں بھاگ کر واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔ وہاں سے فارغ ہو کر ویسے ہی کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔۔ بھا میدا ۔۔۔ اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔ بھا نے تین چار دفعہ عظمیٰ کی چوت ماری ہو گی پھر خیال آیا کہ خان کی طرح بھا بھی گانڈ کا شوقین ہے کیا پتہ اس نے عظمیٰ کی گانڈ بھی ماری ہو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پستر پر آ کر دراز ہو گئی۔۔۔
اگلے دن چونکہ چار بجے ولیمہ تھا اس لیئے میں آرام سے اُٹھی ۔۔۔ نہا دھو کر باہر نکل گئی۔۔ دیکھا تو اکا دکا ۔۔۔ لوگ اُٹھے ہوئے تھے۔۔۔ میں چلتی ہوئی سیدھی ڈائینگ ہال میں گئی دیکھا تو وہاں لیڈیز کا کافی رش تھا مجھے دیکھ کر اماں بولی۔۔۔ آ جا ہما پتر۔۔۔ناشتہ کر لے ۔۔۔ اور میں اماں کے پاس بیٹھ گئی اور ناشتہ کرنے لگی۔۔۔ ناشتے کے دوران ہی اماں نے ایک کام والی کو آواز دی ۔۔۔ اور بولی۔۔۔ جمیلہ۔۔۔۔ زرا دیکھ کر آؤ کہ دلہن اُٹھی ہے کہ نہیں؟ اور پھر مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ اگر دلھا دلہن اُٹھے ہوئے تو ان کے لیئے ناشتہ تم نے لیکر جانا ہے ۔۔۔ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ کچھ دیر بعد جمیلہ ۔۔۔ واپس آئی اور اماں سے کہنے لگی۔۔۔ باجی ۔۔۔ وہ دونوں اُٹھے ہوئے ہیں اور دلہن ۔۔۔واش روم میں گئی ہے تو اماں مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ۔۔۔ تم نے ان دونوں کا ناشتہ لیکر چلی جانا ۔۔۔ اور ناشتہ کرنے کے بعد میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ جمیلہ کو اماں نے دوبارہ سے ان کا پتہ کرنے کو بھیجا ۔۔۔ تو اس نے واپس آ کر کہا کہ بھائی کہہ رہے ہیں کہ ناشتہ لے آؤ۔۔ میں نے ناشتے والی ٹرے جمیلہ کو پکڑائی اور خود اس کے ساتھ چل پڑی وہاں جا کر میں نے دروازے پر ناک کی ۔۔۔ اور پھر اندر گھس گئی۔۔۔ دیکھا تو دلھا دلہن بڑے موڈ میں بیٹھے تھے ۔۔۔ اور عطیہ بھابھی کھلی ہوئی ہوئی تھی۔۔۔ تو اس نے میں نے اندازہ لگایا کہ فائق بھائی نے بھابھی کی اچھی دھلائی کی ہو گی۔۔۔ میں نے ان کے آگے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ بھابھی جی ناشتہ کر لو چکھ دیر بعد۔آپ کو تیار کرنے کے لیئے ۔۔ بیوٹیشن بھی آنے والی ہو گی ۔۔۔ اور وہاں سے اُٹھ آئی۔۔۔اور کچھ دیر بعد بیوٹی پارلر والی بھی آ گئی اور میں اسے لیکر بھابھی کے کمرے میں چلی گئی اور وہ بھابھی کو تیار کرنے لگی ۔۔۔
اسی طرح بھاگم دوڑ میں ولیمے کا ٹائم ہو گیا ۔۔۔ اور ہم لوگوں نے چونکہ ولیمے کا انتظام اپنے محلے میں ہی کیا ہوا تھا ۔۔۔اس لیئے ابا اور خاندان کے باقی بزرگ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔اور اب انتظار تھا تو ۔۔ تو لڑکی والوں کا کہ وہ لوگ آئیں تو ۔۔ ولیمہ شروع ہو اور میں عطیہ بھابھی کو لیکر سٹیج پر جاؤں ۔۔۔۔ کافی انتظار کے بعد بھابھی کے گھر والے آ گئے ۔۔۔ بھابھی کی رشتے داروں خاص طور پر بھابھی کی قریبی دوستوں نے بھابھی کے کمرے میں ہلہ بول دیا ۔اور پھر کمرے میں موجود باقی لڑکیوں کو باہر بھیج دیا ۔اور کمرہ بند کر دیا ۔ جس وقت یہ لیڈیز بھابھی کے کمرے میں داخل ہوئیں اس وقت میں ہاتھ دھونے کے لیئے واش روم میں تھی۔۔اس لیئے میں باہر جانے سے بچ گئی تھی ۔۔۔۔ واش روم کا دروازہ کھلا تھا اور اند ر کی ساری آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔۔۔ ہاتھ دھو کر جب میں تولیہ کی طرف بڑھی جو کہ ان کے واش روم کے دروازے کے پاس لٹکا تھا ۔۔۔تو اندر سے مجھے بھابھی کی کسی بے تکلف سہیلی کی آواز آئی۔۔۔ وہ بھابھی سے رات کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔۔۔ کہ سہاگ رات کیسی رہی۔۔۔ سہاگ رات کو سن کر میں ٹھٹھک گئی اور دروازے سے کان لگا کر۔۔۔ ان کی باتیں سننے لگیں۔۔۔۔ اب وہی لڑکی ۔۔۔۔ کہہ رہی تھی ۔۔۔ عطیہ سہاگ رات کے بارے میں بتاؤ نہ پلیزز۔ پہلے تو بھابھی نے ان کو ٹالنے کی بڑی کوشش کی ۔۔۔ لیکن وہ جو بھی تھیں بھابھی کی کزنز اور دوست وہ ۔۔۔ تھیں بڑی ڈھیٹ ۔۔۔۔ بار بار ایک ہی بات پوچھ رہیں تھی آخر مجبور ہو کر ۔۔۔ بھابھی کہنے لگی۔۔۔ اوکے یار پوچھو ۔۔۔ بتاتی ہو تو ایک آواز سنائی دی۔۔۔ سہاگ رات کسیی گزری؟ ۔۔۔ تو مجھے بھابھی کی شرمیلی سی آواز سنائی دی۔۔جی سہاگ رات بہت اچھی گزری۔۔۔ تو ان میں سے ایک کہنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔۔۔ درد ہوا تھا۔۔۔۔ ؟ تو میرے خیال میں بھابھی نے سر ہلا دیا ہو گا۔۔۔۔تو ۔۔۔ مجھے وہی آواز سنائی دی۔۔ اوئی۔ماں۔۔۔۔ پھر اس کی تجسس بھری آواز گونجی۔۔۔۔ کتنا درد ۔۔ہوا تھا ؟۔۔۔۔تو بھابھی نے ہنس کر کہا ۔۔۔ شادی کر لو ۔۔ خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنا درد ہوتا ہے ۔۔۔اور وہ لڑکی ہنس پڑی۔۔۔ جب سے یہ سہاگ رات والی بات شروع ہوئی تھی کمرے میں بڑی خاموشی سی چھائی تھی۔۔۔ اور ساری لڑکیاں ۔۔ بڑھے دھیان سے ۔۔۔۔ان کی باتیں سن رہی تھیں۔۔۔ میرے خیال میں ان لیڈیز کی کل تعداد دو یا تین ہو گی
۔۔۔ اور میرے خیال میں یہ لڑکیاں بھابھی کی بڑی ہی خاص دوست تھیں۔۔۔ جو اس سے اتنی بے تکلفی سے سہاگ رات کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں۔۔۔پھر ایک اور آواز گونجی ۔۔۔۔۔ اور وہ کہنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتا ۔۔۔۔ دلہا بھائی نے ۔۔ کتنی شارٹس ماریں؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ کمرے میں کچھ دیر تو سناٹا رہا ۔۔۔ پھر اسی آواز نے دوبارہ سے پوچھا ۔۔۔ بول نا ۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگیں ۔۔۔ کیا بولوں ۔۔۔۔ بے شرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔۔تب وہی آواز آئی۔۔۔آہا آہا ہا۔۔۔۔ تو جناب صاحبہ یہ بے شرمی اس وقت کہاں گئی تھی ۔۔۔۔ جب میری شادی ہوئی تھی اور اسی طرح تم سب میرے کمرے میں آ دھمکی تھیں۔۔۔ اور یہی سوال تم نے مجھ سے کہاتھا۔۔۔ تب تو میں نےسب بتا دیا تھا۔۔۔۔اور تم ہو کہ۔۔۔ نخرہ کرتی جا رہی ہو۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ سیدھی طرح ہمارے سوالوں کے جواب دو۔۔۔ ورنہ تم جانتی ہو کہ ہم لوگ تم سے دوسری طرح بھی یہ بات پوچھ سکتیں ہیں۔۔۔۔ اس کی تقریر سُن کر بھابھی کہنے لگی ۔۔یار ایک تو تم ایک دم غصہ کر لیتی ہو۔۔۔ میں تو مزاق کر رہی تھی۔۔۔۔ تو وہی آواز کہنے لگی۔۔۔ عطیہ بیگم میں تم کو اچھی طرح سے جانتی ہوں تم بڑی گھنی ہو ۔۔۔اور مزاق میں بات ٹال رہی ہو۔۔۔ لیکن سن لو ہم ٹلنے والیاں نہیں ہیں۔۔۔ اور باقی لیڈیز کی بھی آواز سنائی دی ۔۔۔ جی بلکل ۔۔۔۔ ہم بات سنے بغیر نہیں ٹلیں گی۔۔۔
تب بھابھی نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔ جی پوچھو ۔۔۔ تو وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔۔۔اور بولیں۔۔۔۔ ہاں جی بتاؤ ۔۔۔ فائق بھائی نے کتنی شارٹس ماریں ۔۔۔ تو بھابھی نے شرمیلی سی ہنسی سے بولیں۔۔۔ جی تین۔۔۔ شارٹس ماریں آپ کے دلہے بھائی نے۔۔۔ اس پر ایک اور آواز گونجی ۔۔۔ ہائے ۔۔ دیکھو نا اس معصوم سی جان کا شارٹیں مار مار کر کیا حال کر دیا ہے۔۔۔۔تبھی ایک اور آواز سنائی دی اور یہ پہلی دفعہ بولی تھی ۔۔۔ وہ بھابھی سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ ساری شارٹس ایک ہی سٹائیل میں تھیں یا۔۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ نہیں ۔۔۔ مختلف۔۔۔تو وہ کہنے لگی مختلف کی بچی۔۔۔۔۔ تفصیل سے بتاؤ۔۔۔ تو بھابھی بولی۔۔۔ پہلی دو۔۔ لٹا کر (یعنی کہ ٹانگیں اُٹھا کر) اور تیسری ۔۔۔ڈوگی میں۔۔۔ تو اس پر وہی لڑکی جو کہ ان میں شادی شدہ تھی کہنے لگی۔۔۔اُف۔۔۔ بولی۔۔۔۔ یار ۔۔۔ لٹا کر بھی ٹھیک ہے ۔۔ پر ڈوگی میں پھینٹی کھانے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔۔۔۔۔۔
پھر ان میں سے ایک نے بھابھی سے پوچھا ۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔ دلہا بھائی نے سک ( چوسنے ) کا بھی بولا۔۔۔ تو بھابھی کی بجائے۔۔۔وہی شادی شدہ خاتون کہنے لگی۔۔۔۔ ارے ۔۔۔شادی کے شروع دنوں میں ایسی فرمائیش نہیں کی جاتی۔۔۔ تو اس پر ایک اور لیڈی بولی۔۔۔ تو آپا۔۔۔ آپ سےشادی کے کتنے ماہ بعد ۔۔۔ یہ فرمائیش ہوئی تھی۔۔۔ تو وہ خاتون بڑی بے باکی سے کہنے لگی۔۔۔۔ارے مہینے کہاں ۔۔۔۔ جان ۔۔دوسرے تیسرے ہفتے میں ہی۔۔۔۔۔ ہم سے یہ کام شروع کروا دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔تو ان میں سے ایک دوسری خاتون کی اشتیاق بھری آواز سنائی دی۔۔۔۔ آپا ۔۔۔ اس میں مزہ بھی آتا ہے یا۔۔۔؟؟؟؟ اور اس سے پہلے کہ آپا اس کی بات کو کوئی جواب دیتی ۔۔۔۔۔ ایک دم سے دروازہ کھلا اور اماں ۔۔۔ کے ساتھ فیملی کی کافی ساری لیڈیز کمرے میں داخل ہو گئیں۔۔۔ اور ان کو دیکھتے ہی وہ لڑکیاں ؎ چُپ ہو گئیں اور بزرگ عورتوں کے لیئے جگہ چھوڑ دی۔۔۔اماں کے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد خواتین کا ایک اور ریلہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔ اور کمرہ رش سے بھر گیا ۔۔۔ موقعہ غنیمت دیکھ کر میں بھی کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔۔اور اس رش کا حصہ بن گئی۔۔ تھوڑی دیر بعد اماں کی آواز سنائی دی۔۔۔ہما پتر۔۔۔ او ہما۔۔۔تو میں نے جلدی سے ان سے کہا ۔۔ جی اماں ۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔ پتر یہاں رش ہو گیا ہے تم دلہن کو لیکر پنڈال میں آ جاؤ ۔۔۔اماں کی بات سُن کر میں نے اور عطیہ بھابھی کی دوستوں کے ساتھ پنڈال میں آ گئے ۔۔۔ اور ان کو لا کر سٹیج پر بٹھا دیا۔۔۔ دلہن کو سٹیج پر دیکھ کر سب ولیمے کی ساری خواتین اس کے پاس آ گئیں ۔۔۔۔اور میں وہاں سے کھسک کر نیچے آ گئی۔۔۔ اور ایک طرف جا کر بیٹھ گئی۔۔۔
ابھی مجھے وہاں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ عظمیٰ باجی نظر آ گئی۔۔۔۔ بھابھی کی طرح وہ بھی بڑی کھلی ہوئی تھی ۔۔۔اور میں ان کو دیکھ کر اندازہ لگا تھی کہ بھا نے اس پر کتنی شارٹس لگائی ہوں گی ؟ مجھے اپنی طرف بڑے غور سے دیکھتے ہوئے عظمیٰ باجی تھوڑی شرما گئی اور کہنے لگیں ۔۔۔کیا بات ہے۔۔؟ تم مجھے اتنے غور سے کیوں دیکھ رہی ہو ؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ باجی کل کر طرح آج بھی آپ بڑی غضب لگ رہی ہو۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ تھوڑا مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔ شکریہ ۔۔۔ پھر میرے پاس بیٹھ کر بولی ۔۔۔۔ کہاں تھی تم ۔۔۔ میں کافی دیر سے تم کو تلاش کر رہی تھی تو میں نے ان سے کہا کہ۔۔۔۔ خیریت باجی۔۔۔؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔ میں تو خیریت سے ہوں ۔۔۔ لیکن کوئی خیریت سے نہیں ہے اور وہ پاگلوں کی طرح تم کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے ۔۔۔ باجی کی بات سُن کر میں ایک دم چونک گئی ۔۔۔۔ اور اپنا سر جھکاکر بولی۔۔۔۔ کون ڈھونڈ رہا ہے باجی؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔۔۔ بس بس اب زیادہ مچلی نہ بن ۔۔۔۔پھر ۔۔۔انہوں نے اپنے ہونٹ میرے کانوں کے قریب کیئے اور کہنے لگیں۔۔ ہما تمھارے ہونے والے منگیتر نے میری جان کھا ماری ہے۔۔۔وہ تم سے ملنا چاہتا ہے تو میں نے کہا۔۔۔۔ وہ کیوں باجی۔۔۔ تو وہ بولی۔۔۔ مجھے کیا پتہ جان۔۔۔ تم خود ہی اس سے مل کر پوچھ لو نا۔۔۔ پھر وہ اسی سرگوشی میں بولیں کہ وہ کب سے میرے گھر میں بیٹھا تمھارا اتنظار کر رہا ہے۔۔۔ اور مجھے بازو سے پکڑ کر بولی۔۔۔ چلو ۔۔۔ نواز کا نام سُن کر مجھ میں ایک عجیب سے شرماہٹ آ گئی ۔۔۔اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔ اور میں نے عظمیٰ کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ باجی۔۔۔۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ میری بات سُن کر عظمیٰ باجی بولی۔۔۔ کوئی نہیں دیکھتا یار۔۔۔ اور ویسے بھی تم اپنے ہونے والے منگیتر سے ملنے جا رہی ہو ۔۔۔۔
ہم چلتے چلتے عظمیٰ باجی کے گھر پہنچ گئے اور پھر گیٹ میں داخل ہو کر عظمیٰ باجی نے مجھے بازو سے پکڑ لیا ۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ میری ایک بات سنوگی ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا جی باجی حکم کرو۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ دیکھو ہما تم میری سب سے اچھی دوست کی بیٹی ہو ۔۔۔ اس لیئے میں تم کو ایک نصیحت کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ۔۔۔۔ نواز سے تمھاری ملاقات میں کچھ کمزور لمحے بھی آئیں گے ۔۔۔ لیکن تم نے خود پر قابو رکھنا ہے ۔۔۔۔۔اور اس کو ایک حد سے آگے نہین بڑھنے دینا ۔۔ پھر تھوڑی رکی اور کہنے لگی۔۔۔۔ ہما اس مرد ذات کا کوئی بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے۔۔ کیونکہ یہ کمزور لمحات کا بھر پور فائدہ بھی اُٹھا لیتا ہے ۔۔اور پھر یہ کہہ کر لڑکی کو دھتکار بھی دیتا ہے کہ یہ لڑکی ٹھیک نہیں ۔۔۔ اور اس لڑکی کا کریکٹر ڈھیلا ہے ۔۔۔
چلتے چلتے ہم عظمیٰ باجی کے ڈارائینگ روم تک پہنچ گئے ۔۔۔۔وہاں پہنچتے ہی اس نے کہا وہ اندر بیٹھا ہے وِش یو گُڈ لگ۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔ میری بات یاد ہے نا؟؟ اور میں سر ہلا کر اندر چلی گئی۔۔۔۔ سامنے صوفے پر نواز بیٹھا تھا مجھےدیکھتے ہی وہ اپنی جگہ پر اُٹھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ بڑا انتظار کروایا ہے آپ نے۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔اتنی دیر ہو گئی آپ کہاں تھی؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ میرا اتنظار کر رہے ہو۔۔۔ اور پھر اس کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ یک ٹک میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ پھر وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ ہما ۔۔۔یہ سوٹ تم پر بہت سوٹ کر رہا ہے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر پتہ نہیں مجھ میں اتنی شرماہٹ کہاں سے آ گئی ۔۔۔۔ اور میرا ۔۔۔چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔۔۔اور میں نے جھکے ہوئے سر کواُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولی ۔۔۔۔آپ بھی تو اس ٹو پیس میں بہت شاندار لگ رہے ہو۔۔۔ میری بات سن کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا ۔۔میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ اسے یوں اپنے پاس بیٹھے دیکھ کر میں گھبرا سی گئی اور بولی۔۔۔ارے ارے۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہو؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ آپ کا ہاتھ پکڑ رہا ہوں ۔۔۔پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں کی طرف لے گیا اور ۔۔۔ میرے ہاتھ کی پشت کو چوم کر بولا۔۔۔۔ آئی لو یو ہما۔۔۔۔۔۔ اس کے بوسے اور آئی لو یو سُن کر میں شرم سے گلنار ہو گئی۔۔اور اپنا سر جھکا لیا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے دل ہی دل میں اس بات پر بھی حیران ہو رہی تھی کہ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ۔۔۔تب اس نے میرے جھکے ہوئے سر کو اوپر اُٹھایا اور بولا۔۔۔ ہما پلیزز میری طرف دیکھو نا۔۔۔ لیکن میں نے اپنی نگاہ نیچ کیئے رکھی۔۔۔۔۔۔۔تب اس نے بڑی منت سے کہا ۔۔۔۔ ہما یار پلیززززززززززز ۔۔۔۔ پلیززززززززززززززززز ۔۔۔۔۔۔۔۔میر ی طرف دیکھو نا۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اپنے چہرے کو تھوڑا اوپر کیا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ جی میں نے دیکھ لیا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو نا ۔۔۔۔۔ پلیززززززززززززززز۔۔۔تب میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں ۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں سے پیار ہی پیار ٹپک رہا رہا تھا ۔۔اور وہ بڑی ہی جگر پاش نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس کا یہ انداز دیکھ کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور شرم سے میرے گال تمتا اُٹھے۔۔۔
ادھر نواز نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔ہما ۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔ ڈو ۔۔یو لو می۔۔۔ تو اس میں نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے کہا مجھے کیا پتہ۔۔۔ تو وہ تڑپ کر کہنے لگا۔۔۔ ہما پلیزززززززز ۔۔۔بس ایک بار ۔۔۔ ۔۔۔ ایک بار کہہ دو ۔۔۔ کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو۔۔۔ لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ اور گھبرا کر ایک بار پھر سے اپنا سر نیچے کر لیا۔۔۔اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔ پتہ نہیں اس کو میری یہ ادا کیسی لگی کہ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اُٹھا اور میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اس کے جسم کا میرے جسم سے لگنا مجھے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں ڈر بھی رہی تھی ۔۔۔ ۔اس کے بعد نواز نے ایک کام کیا اور مجھے اپنی باہنوں کے حصار میں لیکر کر اس نے میرے گالوں کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔ میں کچھ بولی تو نہیں ۔۔ لیکن اس کے اس ایکٹ سے میں شرم سے دوھری ہو گئی ۔۔۔۔اور ۔۔ بددستور اپنے ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔ ۔۔یہ یہ۔۔۔ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ کوئی آگیا تو کیا ہو گا۔۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے میڈم ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ لیکن مجھے تو ہے آپ تو چلے جاؤ گے پیچھے سے میں بدنام ہو جاؤں گی۔۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگا ۔۔اچھا تو یہ بات ہے میں دیکھتا ہو ں کہ کون تم کو بدنام کرتا ہے ۔۔۔ تمہیں بدنام کرنے والے کی ذات کو میں ہستی سے ہی مٹا دوں گا۔۔۔۔ اور پھر سے میرے گالوں کو چومنے لگا۔۔۔۔ گال چومتے چومتے ۔۔۔جیسے ہی وہ میرے ہونٹوں کی طرف آیا ۔۔۔۔ میں نے ایک دم اپنا منہ پیچھے کر لیا ۔۔۔۔اور اس سے بولی۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ اس سے آگے نہیں ۔۔۔تو وہ منت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ بس ایک ہی کس ۔۔۔ ہما جسٹ ون کس۔۔۔۔ لیکن میں نے سختی سے انکار کر دیا ۔۔۔۔اور بولی۔۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔۔جتنا آپ نے کر لیا ۔۔اتنا ہی بہت ہے اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔اتنے میں عظمیٰ باجی بھی ۔۔۔ ہاتھ ٹرے لیئے کمرے میں داخل ہوئیں اور کہنے لگیں ۔۔سوری نواز ۔۔۔ یہ تو میں بھول ہی گئی تھی۔۔۔
باجی کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر نواز کہنے لگا۔تھینک یو میم۔۔۔ اب میں چلوں گا۔۔۔ اور تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا ۔۔۔ اس کے جاتے ہی عظمیٰ باجی نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ کر لینے دینی تھی ایک کس۔۔۔ بے چارہ تم سے صرف ایک کس ہی تو مانگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور باجی کی یہ بات سُن کر میں حیران رہ گئی اور سمجھ گئی کہ وہ چھپ کر ہمیں دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی ۔۔۔ میرے سارے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی اور میں نے باجی کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔ او ۔۔۔یو۔۔۔۔۔۔ تو عظمیٰ میری بات بھانپ کر بولی۔ ۔۔۔بھائی نظر تو رکھنی پڑتی ہے نا۔۔۔ اور مجھے چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔ ولیمے کے بعد فائق بھائی دلہن کے ساتھ اپنے سسرال چلے گئے ۔۔۔ وہاں سے ان دونوں نے اپنا ہنی مون منانے مری ۔۔کاغان ناران وغیرہ جانا تھا۔۔۔۔ان کے جانے کے بعد ایک ایک کر کے گھر کے سارے مہمان بھی چلے گئے اور پیچھے ہم رہ گئے ۔۔۔اور پھر ہمارے گھر کی وہی پرانی روٹیں شروع ہو گئی ۔۔اور میں نے محسوس کیا تھا کہ جوں جوں میں بری ہوتی جا رہی تھی ۔۔ میں ۔۔ پہلے سے زیادہ ہا ٹ ہو گئی تھی۔۔۔ لیکن باہر کی بجائے میں فنگرنگ کو ترجیع دیتی تھی۔۔۔ کہ باہر بہت رسک تھا۔۔۔
یہ فائق بھائی کے ولیمے کے دس پندرہ دن بعد کا واقعہ ہے ۔۔۔ اس دن میرا کالج جانے کو جی نہیں کر رہا تھا اس لیے میں نے رات ہی اماں کو بتا دیا تھا کہ کل میں نے چھٹی مارنی ہے ۔۔۔ اور مجھے نہ جگایا جائے۔۔۔ دس بجے کا وقت تھا جب میں اُٹھی اس وقت تک سب گھر کے سب مرد اپنے اپنے کام کاج کو چلے گئے تھے۔۔۔میں اُٹھ کر میں باتھ روم گئی اور واپسی پر کھڑکی سے ایک نظر باہر ڈالی تو حسبِ معمول اماں چارپائی پر بیٹھی دوپہر کے کھانے کا بندوبست کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ کچھ گنگنا بھی رہی تھی۔۔۔۔ اماں پر ایک نظر ڈال کر میں واپسی کے گھومی تو اچانک میں نےدیکھا کہ عظمیٰ باجی کو دیکھا جو اماں کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔ ۔۔اسے آتا دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ یہ وقت تو اس کے آفس جانے کا تھا۔۔۔۔ اتنے میں اماں کی آواز گونجی وہ عظمیٰ کی طرف دیکھ کر کہہ رہی تھی ۔۔۔ارے آج تم آفس نہیں گئی۔۔۔؟ تو عظمیٰ باجی اماں کے پاس بیٹھے ہوئے بولی۔۔۔ ارے نہیں یار آج جانے کا موڈ نہیں تھا ۔۔۔سو چھٹی کر لی۔۔۔۔۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ بات کرکے عظمٰی باجی اپنا ہاتھ اپنی چوت کی طرف لے گئی اور اسے کجھانے لگی۔۔۔ میں نے اسے روٹین کی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔۔۔ لیکن عظمیٰ باجی نے بار بار اپنی چوت کو کھجایا تو اس بات کو اماں نے بھی نوٹ کیا اور وہ عظمیٰ باجی کوچوت کھجاتے ہوئے دیکھ کر بول اُٹھی۔۔۔۔کیا بات ہے عظمیٰ آج پھدی بڑی کجھائی جا رہی ہے؟ تو عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔۔ ارے باجی اسی لیئے تو تیرے پاس آئی ہوں ۔۔۔۔ کال شام سے میرے یہاں بڑے زور سے کجھلی ہو رہی ہے ۔۔۔اسی لیئے تو میں آفس بھی نہیں گئی ۔۔۔ تو اماں اس کی چوت کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔کچھ علاج کیا اس کا؟ تو اماں کی بات کی سُن کر عظمیٰ اپنی چوت کو کجھاتے ہوئے بولی۔۔۔ ارے علاج کےلیئے ہی تو تیرے پاس آئی ہوں ۔۔۔ تم اتنی بڑی چداکڑ خاتون ہو تمھارے پاس کوئی علاج تو ہو گا نا اس کا ۔۔۔۔۔ عظمیٰ کا لفظ چداکڑ سن کر اماں ہنس پڑی اور ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔ ہاں میں چداکڑ ہوں ۔۔۔ لیکن میری جان میں اپنی پھدی کو لن سے چدواتی ہو ں ۔۔۔ تمھاری طرح ۔۔۔۔ بیگن ۔۔۔کھیرا ۔۔موم بتی اور جانے کیا کیا چیز نہیں لیتی اپنی چوت میں۔۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمیٰ باجی تھوڑی کھسیانی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ تمہارے پاس تو سرکاری لنڈ ہے نا ۔۔۔ اس لیئے ایسی باتیں کر رہی ہو ۔۔اور ہم ٹھہری بے چاری بیوہ ۔۔۔۔ ہمارے لیئے تو بیگن ۔۔۔کیلا اور موم بتی وغیرہ ہی ہے نا۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔۔ تو اچھی طرح جانتی ہے کہ میں اپنے سرکاری لن پر کتنا انحصار کرتی ہوں ۔۔ پھر اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ تم کو ہزار دفعہ کہا ہے کہ اپنی چوت میں جب بھی کیلا یا موم بتی وغیرہ لیا کرو تو ان پر کنڈوم چڑھا لیا کرو۔۔۔۔۔اماں کی بات سُن کر عظمیٰ کہنے لگی ۔۔۔ یار بعض اوقات ۔۔۔۔۔ جوش میں یاد نہیں رہتا نا۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔۔ یاد نہ رکھنے کا نتیجہ دیکھ لیا۔۔۔۔؟
تو عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔ نہ صرف دیکھ لیا بلکہ بھگت بھی لیا۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔ باجی پلیز اس کا اپائے بھی بتاؤ نہ۔۔۔۔ تو اماں نے کہا پہلے مجھے چیک تو کرنے دو۔۔۔۔اور اس سے بولی چلو اپنی پھدی چیک کروا۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمیٰ نے ادھر ادھر دیکھا اور بولی ۔۔۔ یہاں؟ تو اماں کہنے لگی۔۔گھر میں کوئی نہیں ۔سب لوگ کاموں پر گئے ہیں۔۔۔۔ ہاں ہما ہے لیکن تم کو معلوم ہے چھٹی والے دن وہ بارہ بجے سے پہلے نہیں اُٹھتی ۔۔۔۔اماں کی بات سُن رک عظمیٰ نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اور اپنی آزار بند کھول دیا۔۔۔۔ اور تھوڑا پیچھے ہٹ کر اپنی ننگی چوت اماں کے سامنے کر دی۔۔۔ اب اماں تھوڑا نیچھے جھکی اور اس کی چوت کا معائینہ کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ تمہیں الرجی ہوئی ہے میری جان ۔۔۔۔ پھر انہوں نے میرے سامنے ۔۔۔عظمیٰ باجی کی چوت کو اپنی دو انگلیوں کی مدد سے کھولا اور عظمیٰ کی چوت کے اندر تک دیکھتے ہوئے ایک لمبا سا ۔۔۔ ہوں ۔کیا اور کہنے لگی ۔۔ساری چوت کے ارد گرد اور اندر تک۔۔ چھوٹے چھوٹے سرخ دانے سے ہیں۔۔۔۔ پھر انہوں نے عظمیٰ سے کہا کہ تم نے اپنی چوت کو ڈیٹول سے دھویا؟۔۔۔تو وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔۔۔ ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔ بس سیدھی آپ کے پاس آ گئی۔۔۔ تو اماں کہنے لگی چل میرے ساتھ میں تیری پھدی کو نہ صرف ڈیٹول سے دھوتی ہوں ۔۔ بلکہ اس پر ایک الرجی کی کریم بھی لگاتی ہوں ۔۔ تو عظمیٰ نے اماں کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔ شکریہ باجی۔۔۔۔ اور اماں کے ساتھ چل پڑی۔۔۔
ان کو واش روم میں جاتے دیکھ کر میں دوبارہ سے بستر پر ڈھیر ہو گئی اور سوچنے لگی کہ پتہ نہیں عظمیٰ باجی کن کن چیزوں سے اپنی پھدی کو چودتی ہے اور ۔۔۔ پھر سے سو گئی۔۔۔۔اس واقعہ کے تیسرے دن فائق بھائی اور عطیہ باجی گھر واپس آگئے اور ان کے آنے گھر میں بہار سی آ گئی۔۔یہاں میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتا دوں کہ فائق بھائی کا کمرہ میرے کمرے کے ساتھ ہی جڑا ہوا تھا ۔۔۔ اس لیئے میرا زیادہ وقت عطیہ بھابھی کے ساتھ گپ شپ میں گزتا تھا ۔۔۔اور وہ تھی بھی بڑی ہنس مکھ اور اچھی طبیعت کی ۔۔۔۔۔ اس لیئے کچھ ہی دنوں نے انہوں نے خصوصاً ابا اماں کے دل میں گھر کر لیا تھا۔۔۔۔اسی طرح دن گزرتے رہے ۔۔۔۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں کالج جانے کے لیئے تیار ہو رہی تھی۔۔۔ کہ دیکھا تو میری دراز میں ہئیر برش نہیں تھا ۔۔۔۔ کافی تلاش کیا۔۔۔ لیکن وہ نہیں ملا پھر سوچا کہ چلو ۔۔عطیہ بھابھی سے لے لیتی ہوں۔۔ان کے کمرے کی جاتے ہوئے میں نے سوچا کہ ۔۔ نیا جوڑا ہے کہیں ۔۔۔ تو پھر خیال آیا کہ یہ صبع کا وقت ہے اور اس وقت ۔۔۔۔ بھائی آفس جانے کی تیاری کر رہے ہوں گے اس لیئے ۔۔۔۔
۔ ان کے کمرے میں جانے میں کوئی حرج نہ ہے یہ سوچ کر میں ان کےکمرے کا ہینڈل گھمایا تو پتہ چلا کہ کمرہ اندر سے لاک ہے۔۔ چنانچہ میں یہ سوچ کر کہ کھڑکی سے ان کو آواز دیتی ہوں ۔۔۔۔ اس کی طرف بڑھی چونکہ ان کا کمرہ راہدری کے آخر میں تھا ۔۔اس لیئے ان کے کمرے کی کھڑکی ۔بھی راہداری کے کونے میں تھی جس کی طرف گھر کے لوگ کم ہی ۔۔۔چنانچہ میں کھڑکی کی طرف گئی اور اندر جھانک کر دیکھنے لگی۔۔۔۔ اُف اندر کا نظارہ ۔۔۔ بڑا ہی توبہ شکن تھا۔۔۔میں نے دیکھا کہ بھائی ننگے کھڑے تھے اور عطیہ بھابھی ان کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑےہلا رہی تھی پھر بھائی اس کی طرف دیکھ کرکہنے لگے۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔ رات کی کیا بات ہے لیکن ۔۔۔ مارنگ فک ( صبع کی چودائی) کا بھی اپنا ہی مزہ ہے تو عطیہ بھابھی ان کے لن پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو فائق ۔۔۔ مجھےبھی رات سے زیادہ صبع کی چودائی میں زیادہ مزہ آتا ہے ۔۔۔ اسی اثنا میں بھائی کا لن بھی کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ۔۔۔فائق بھائی کا لن بھا کی طرح نہ تو زیادہ موٹا تھا اور نہ ہی اس کی طرح لمبا تھا ۔۔۔ بس ٹھیک تھا۔۔۔۔ جیسے ہی بھائی کا لن اپنے جوبن میں آیا ۔۔۔۔۔ عطیہ بھابھی ان سے کہنے لگی۔۔۔۔ چلو اب کرو۔۔۔۔تو بھائی اس کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہنے لگے۔۔۔ نہ جی نہ۔۔۔ ہم تو رات کو چودتے ہیں دن کو چودنے کی ذمہ داری آپ کی ہے۔۔۔
عطیہ بھابھی بھائی کی بات سُن کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ جو حکم میری سرکار۔۔۔ اب لیکن اس سے پہلے آپ پلنگ پر لیٹو گے تو باندی۔۔۔۔ آپ کے لن پر سوار ہو گی نا ۔۔۔۔ تو بھابھی کی بات سُن کر ۔۔۔۔۔ بھائی شرارت سے کہنے لگے۔۔۔۔ کنیز ۔۔۔ اس سے پہلے کہ تم ہمارے ۔۔۔ سواری کے جانور پر سوار۔۔۔۔ہو ۔۔۔تم کو صلاح دی جاتی ہے کہ پہلے اس جانور کو اپنے منہ کے پانی سے اچھی طرح دھو یا جائے ۔۔ پھر اس کو اپنی زبان سے گیلا کر کے اسے چکنا کیا جائے ۔۔تا کہ جب تم اس پر سوار ہونے لگو تو ۔تمہاری سواری کا ۔ جانور پھسلتا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے ۔۔سوارخ میں داخل ۔ ہو سکے ۔۔۔۔۔ بھائی کی بات سُن کر بھابھی نے ٹیڑھی نظروں سے بھائی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ توبہ ہے ۔۔۔ ابھی رات کو تو اتنا چوسا ہے۔۔۔۔ اب پھر سے چوسوا گے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔تو بھائی اسی ترنگ میں کہنے لگے۔۔۔۔حکم کی تعمیل ہو۔۔۔۔۔اور خود بیڈ کے کنارے پر اس طرح سے لیٹ گئے کہ ان کی ٹانگیں تو بیڈ سے نیچے تھیں جبکہ۔۔۔۔باقی دھڑ پلنگ پر تھا۔۔۔۔اور ان کا لن کھڑا چھت سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ بھائی کا آرڈر سن کر عطیہ بھابھی آگے بڑھی اور گھٹوں کے بل فرش پر بیٹھ گئی اور بھائی کا لن ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔ ایک تو تمہارا من بھی نا ۔۔۔لن چسوانے سے کبھی نہیں بھرتا ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد اس نے بھائی کے لن کو اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ابھی بھابھی کو لن چوستے تھوری ہی دیر ہوئی تھی کہ ۔۔ ان کا کمرہ ۔۔۔ بھائی ۔۔۔ کی سسکیوں سے گونجنے لگا۔۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔اف۔۔۔ف۔ف۔ف۔ف۔ف۔۔۔سس سس۔۔۔۔تب بھابھی نے بھائی کا لن اپنے منہ سے نکلا اور کہنے لگی ۔۔۔ عالی جاہ ۔۔۔ یہ آپ کے منہ سے کیسی آوازیں نکل رہیں ہیں تو بھائی کہنے لگے۔۔۔۔ ہماری یہ سسکیوں کی آوازیں ہیں کنیا ۔۔۔ جو تم نے اپنے عجب منہ سے غضب چوپا لگا کر نکالی ہیں۔۔۔ ۔۔۔ پھر کہنے لگے۔۔۔ کنیز ۔۔ تمہارے اس لن چوسنے کے عمل نے ۔ ہمیں مزے کے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگیں عالی جاہ ۔۔آپ کے جانور کو چوس چوس کر میری ۔۔۔۔ چوت بھی پوری طرح گیلی ہو ہو کر پانی چھوڑ رہی ہے اگر اجازت ہو تو میں آپ کے جانور پر سوار ہو جاؤں ؟؟؟
تو بھائی کہنے لگے ۔۔بے شک ۔۔۔ کنیا ۔ہمارا لن چوس کر تم نے ہمیں اتنا مزہ دیا ہے کہ ۔اب ۔تم ہمارے لن پر بیٹھنے کی پوری طرح سے حق دار ہو۔۔۔ لیکن اس سے پہلے تم اپنی چوت کو ہمارے منہ کے قریب لاؤ کہ۔۔۔ زرا ہم بھی اس کا گیلا پن چیک کر سکیں ۔۔۔ بھائی کی بات سن کر بھابھی اُٹھی اور پلنگ پر چڑھ گئی ۔۔ اور اپنی ٹانگوں کو کھول کر ۔۔ اپنی چوت کو بھائی کے منہ کے قریب لے گئی۔۔۔اور پھر اسے بھائی کے منہ پر رکھ دیا ۔۔۔ بھابھی کی چوت منہ پر لگتے ہی بھائی نے سب سے پہلے اپنی ناک کو بھابھی کی چوت کے قریب رکھا اور ۔۔اسے سونگھ کر کہنے لگے۔۔۔ ہوں ۔۔۔ مہک تو بہت اعلیٰ ہے کنیا ۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی ۔۔عالی جاۃ ۔ زرا ۔۔اپنی ۔ زبان لگا کر اس کا ذائقہ بھی چیک کیا جائے۔۔۔ ہماری چوت کا ذائقہ ۔۔۔۔ اس کی مہک سے سو گنا اچھا ہے ۔۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی نے۔ اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور اسے بھابھی کی چوت پر لگا کر اسے چاٹنے لگے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد بھابھی ۔۔۔ مست ہو گئی ،۔۔۔اور اپنی چوت کو بھائی کے منہ سے لگا کر رگڑا لگانے لگی۔۔
چوت چٹوانے کے کچھ دیر بعد۔۔۔بھابھی ۔۔نے اپنی پھدی کو بھائی کے منہ سے ہٹایا ۔۔ اور اُٹھ کر ۔۔۔ پچھلے پیروں سے چلتی ہوئی بھائی کے لن کی سیدھ میں کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔ اس کا منہ بھائی کی طرف تھا پھر وہ تھوڑا نیچے ہوئی ۔۔۔اور اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر بھائی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔اپنی چوت کوبھائی۔۔۔کے لن کے نشانے پر رکھ کر ۔۔۔ آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنے لگی۔ ۔۔۔ ۔۔ اور جب بھائی کا سارا لن بھابھی کی چوت میں غائب ہو گیا ۔۔۔تو اس نے ایک سسکی لی۔۔اور بولی ۔ فائق صاحب میری چوت آپ کے لن کو کھا گئی ہے ۔۔۔۔اور پھر بڑے ہی شہوت زدہ لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ سرکار۔۔۔۔ آپ کے لن سے میری چوت بھر گئی ہے ۔۔۔ اب کیا کروں ؟ ۔۔۔ ۔۔۔۔ تو نیچے سے بھائی کی دبی دبی ۔۔۔آواز سنائی دی۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے جمپ مار ۔۔۔ جمپ مار۔۔۔ اور بھائی کی بات سنتے ہی بھابھی نے بھائی کے لن پر جمپ مارنا شروع کر دیئے ۔۔۔۔اور پھر کافی دیر تک وہ بھائی کے لن پر اُٹھک بیٹھک کرتی رہی۔۔جیسے جیسے بھابھی بھائی کے لن پر اوپر نیچے ہوتی ویسے ویسے ان دونوں کی گندی گندی باتوں میں اضافہ ہوتا جا رہاتھا ۔۔۔ بھابھی لن پر بیٹھتے ہوئے کہتی ۔گانڈو۔۔ میں اپنی پھدی سے تجھے چود رہی ہوں ۔۔۔اور بھائی۔۔۔ نیچے سے جواب دیتے ۔۔۔ گانڈو میں نے نہیں تم ہو۔۔ جس کی گانڈ میں ۔۔ میں نے اپنا یہ لن دیا ہے۔۔آہ۔۔۔ بہن چود۔۔گھسے تیز مار نا۔۔
۔ تو بھابھی جواب دیتی ۔۔سالے گھسے تیز ہی تو مار رہی ہوں۔۔۔اور بھائی پھر سے سسکی لیکر کر کہتے ۔۔۔۔ عطیہ تیری چوت بڑی تنگ ہے۔ماں چود ۔۔۔ زور سے جمپ لگا نا۔۔تو بھابھی بھی ویسے ہی ترک بہ ترکی جواب دیتی ۔۔۔ تیری ماں چودوں ۔۔ مار تو رہی ہو جمپ۔۔۔ اور کیسے ماروں ؟ ۔زیادہ تکلیف ہے تو خود مار۔۔۔۔ تو بھائی کہتے جواب دیتے ۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔ عطیہ ۔۔۔۔ لن کو مزہ آ گیا ۔۔۔ تو بھابھی کہتی ۔۔۔فائق ق ق ۔۔میری یہ ۔ کی چوت ۔۔۔۔ صرف تیرے لیئے ہے ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ جمپ مارنا شروع ہو جاتی ۔۔ ۔۔۔۔آخر کچھ دیر بعد۔۔۔بھابھی نے تیز تیز ۔۔ جمپ مرتے ہوئے بھائی سے کہا۔۔۔۔۔ عالی جاہ۔۔۔ کنیز کی چوت کا پانی۔۔اس کی چوت کے لبوں تک آ گیا ہے۔۔۔تو نیچے سے بھائی بھی کہنے لگے۔۔۔۔۔۔ میں بھی ۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی دونوں کے جسم کانپے اور ۔۔۔۔پھر اپنے اپنے منہ سے سیکسی آوازیں نکالتے ہوئے ۔۔۔ وہ دونوں ۔۔اکھٹے ہی چھوٹ گئے۔۔۔ بھابھی نے کچھ دیر تک تو بھائی کالن اپنے اندر رہنے دیا۔۔۔ پھر وہ پھرتی سے بھائی کے لن سے نیچے اتری۔تو میں نے دیکھا ۔کہ بھائی کا لن دونوں کی منی سے لتھڑا ہوا تھا ۔۔۔اسی اثنا میں ۔ بھائی لیٹے لیٹے کہنے لگے ۔۔۔۔۔اب ۔۔ کنیز کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لن پر لگی اپنی اور میری منی کو چاٹ کر صاف کرے۔۔۔اور بھابھی جو حکم کہہ کر نیچے جھکی اور اپنی زبان سے بھائی کا سارا لن صاف کر دی۔۔۔۔
بھائی کے لن کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد بھابھی اوپر اُٹھی اور بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ عالی جاہ ۔۔۔ آپ کے کہنے پر میں نے آپ کے لن پر لگے سارے ملبے کو چاٹ کر صاف کر دیا ہے ۔۔۔ لیکن۔۔۔ جنابِ عالی ۔۔ میری پھدی میں پڑی منی کو کون صاف کرے گا؟تو بھائی کہنے لگے۔۔۔۔ عطیہ بیگم ہمارے علاوہ اور کس کی جرات ہے کہ وہ ۔۔۔تمہاری چوت کی طرف دیکھ بھی سکے اور اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے اُٹھتے ہی۔۔۔۔بھابھی۔۔ ان کی جگہ لیٹ گئی ۔۔۔اور بھائی گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئے اور بھابھی کی ٹانگوں کو پکڑ کر ان کو کھول دیا اور پھر ان کی پھدی میں پڑی ساری کی ساری منی چٹ کر گئے۔۔۔ ۔۔۔
بھائی اور بھابھی کا یہ گرم سین دیکھ کر میری تو حالت ہی غیر ہو گئی اور ۔۔۔ میں وہاں سے بھاگ کر اپنے کمرے میں آ گئی ۔۔اور ۔۔۔خوب فنگرنگ کی۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اب مجھے اس بات کا بھی پتہ چل گیا تھا ۔۔ کہ عطیہ بھابھی اور بھائی ۔۔دونوں ہی ۔۔ مارننگ فک ( صبع کے وقت کی چودائی ) کے شوقین ہیں ۔۔۔پھر اس کے بعد ۔۔۔ روز تو نہیں ۔۔۔البتہ ہر دوسرے تیسرے دن میں ان دونوں کے گرم شو کا مظاہر ہ ضرور دیکھا کرتی تھی۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی۔۔۔۔باقی۔۔ آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment