بلا شبہ فائق بھائی اور عطیہ بھابھی کا جوڑا بہت شوقین مزاج ۔۔ محبت کرنے والا ۔۔اور ایک گرم جوڑا تھا اور وہ دونوں روزانہ نت نئے طریقوں کے ساتھ سیکس کیا کرتے تھے اور دورانِ سیکس دونوں بہت ہی گندی گندی باتیں بھی کرتے تھے ایک دن کی بات ہے کہ اس دن کسی وجہ سے کالج میں چھٹی تھی ۔۔چنانچہ میں نے رات ہی اماں کو بتا دیا تھا کہ کل چھٹی
ہے اور مجھے کسی نے نہیں اُٹھانا۔۔۔ اس لیئے میرے بتانے کی وجہ سے اگلی صبع اماں نے مجھے نہیں جگایا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں اس دن کالج ٹائم پر خود بخود ہی میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔ دیکھا تو ابھی صبع کے آٹھ ہی بجے تھے۔۔۔۔گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہی میرے زہن میں عطیہ بھابھی اور فائق بھائی کا خیال آیا ۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے ایک دم بستر سے جمپ لگائی ۔۔۔اور جلدی جلدی واش روم سے ہو کر فائق بھائی کے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔ ۔۔۔اور ان کے کمرے کا ہینڈل گھما کر دیکھا تو اسے لاک پایا۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھائی ابھی تک آفس نہیں گئے تھے۔۔۔اور ابھی اپنے کمرے میں ہی تھے ۔۔اور صبع کے ٹائم بھائی کا کمرے میں ہونے کا مطلب تھا ۔۔۔ کہ شو ۔۔آن ۔۔۔ہے۔۔۔ ۔۔ یہ بات سوچتے ہی میرے سارے جسم میں ایک سنسنی سی چھا گئی۔۔۔۔ اور آنے والے وقت کا سوچ کر میری چوت پر ۔۔۔ چیونٹیاں سی رینگنے لگیں ۔پھر میں نے ایک نظر اپنی راہداری پر دوڑائی تو دیکھا کہ ساری راہداری خالی تھی۔۔۔۔ چونکہ ابا اور فیض بھائی صبع صبع ہی اپنے اپنے آفس میں چلے جاتے تھے اس لیئے اماں اور فیض بھائی کی بیگم ان کو رُخصت کرنے کے بعد اپنے اپنے کمرے میں جا کر کم از کم گھنٹہ ڈیڑھ مزید ریسٹ کر تی تھیں اور پھر اس کے بعد اُٹھ کر وہ دوپہر کی ہانڈی روٹی وغیرہ کا بندوبست کیا کرتی تھیں۔۔۔۔۔ ۔۔ چنانچہ ادھر سے بے فکر ہو کر میں دبے پاؤں چلتی ہوئی راہداری کے آخر میں جا پہنچی اور ۔۔۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو ۔میں نے ان کے ۔۔ کمرے کو خالی پایا۔۔۔۔۔۔۔ اور کمرے کو خالی دیکھ کر میں تھوڑا مایوس سی ہو گئی تھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ اس بات پر حیران بھی ہو رہی تھی کہ بھائی کا کمرہ لاک ہونے کے باوجود ۔۔بھی ۔ یہ دونوں کدھر چلے گئے؟ پھر مجھے واش روم کا خیال آیا ۔۔اور میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو ان کے واش روم کا دروازہ تھوڑا کھلا ہوا تھا اور اس کھلے دروازے سے مجھے ایک سایا سا لہراتا ہوا نظر آگیا ۔۔اور اس سائے کو دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ وہ دونوں واش روم کے اندر ہوں گے۔ اور کچھ مطمئن ہو کر ان کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔اور ۔۔ میرا یہ انتظار زیادہ طویل ثابت نہ ہوا اور کچھ ہی د یر بعد میں نے بھائی اور بھابھی کو واش روم باہر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت بھائی ننگے تھے جبکہ بھابھی نے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان کے یہ کپڑے پانی سے مکمل طور پر بھیگے ہوئے تھے۔۔۔ اور بھائی کو ننگا دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ دیکھو ۔۔۔۔ یہ لوگ آج سیکس کرنے کے لیئے کون سا نیا پارٹ پلے کرتے ہیں۔؟ ۔۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ بھائی چلتے چلتے ۔۔۔ صوفے کے پاس جا کر رُک گیا ۔۔۔۔ اور بظاہر روتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ آیا جی ۔۔!!! آپ نے مجھے ٹھیک سے نہیں نہلایا ۔۔۔۔ تو بھابھی اسے پچکارتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ دیکھ منا میں نے تمہیں اچھی طرح سے نہا تو دیا ہے ۔۔تو بھائی جو اس وقت منا کا پارٹ پلے کر رہا تھا کہنے لگا۔۔۔ کیا خاک نہلایا ہے ۔۔۔۔پھر اپنے لن کی طرف اشارہ کر کے بولے ۔۔۔ دیکھیں نا ۔۔۔ آیا جی ۔۔۔۔ یہ جگہ تو ابھی بھی ویسی کی ویسی گندی ہے۔اور پھر جھوٹ موٹ رونے لگے۔۔۔۔ تب بھابھی نے بھائی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور بڑے پیار سے کہنے لگی۔۔۔ ارے ۔۔۔ارے۔۔ منا میری جان ۔۔۔ اتنی سی بات پر روتے نہیں ہیں ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی بھابھی نے بھائی کا نیم کھڑے لن کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا۔۔۔۔ اور بڑے غور سے اسے دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔ کیا ہے اسے؟ صاف تو ہے ۔۔۔ اور ۔۔پھر بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ اس پر تو کوئی بھی گندگی نہیں لگی ہوئ ہے۔۔۔۔۔ تو بھائی نے بھابھی کی طرف دیکھ کر کہا کہ جھوٹ نہ بولیں آیا جی ۔ ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے لن کو پکڑ کر ہلا یا اور بھابھی کو اپنا ٹوپا دکھا کر کہنے لگے ۔۔۔ ادھر دیکھیں نا ۔۔ یہاں سے یہ کتنا میلا لگ رہا ہے۔۔اور ۔ کتنا گندہ بھی ہو رہا ہے۔۔۔ تو بھابھی نے ان کے ٹوپے کو دیکھ کر کہا ۔۔ نہیں منا ۔۔ یہ میلا نہیں بلکہ اس کا کلر ہی ایسا ہے۔۔۔پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔ اچھا اگر تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں ۔۔۔ پھر بولی ۔۔چلو واش روم میں ۔۔ میں اسے دوبارہ سے صابن لگا کر دھو دیتی ہوں ۔۔۔ تو بھائی بچوں کی طرح ضد کر کے کہنے لگے ۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔ اب یہ جگہ ۔واش روم میں صابن سے نہیں ۔ ۔۔ بلکہ ۔۔۔ ۔۔ اب آیا جی۔۔۔ آپ اسے ۔اپنی ۔۔۔ زبان سے صاف کریں گی۔۔۔۔۔۔ تو بھابھی جو اس وقت آیا کا رول نبھا رہی تھی ۔۔۔ نے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ ٹھیک ہے منا ۔۔۔ میں تمھاری گندی جگہ کو اپنی زبان لگا کر صاف کرتی ہوں ۔۔۔ لیکن اس کے لیئے تم کو بھی میرے ساتھ ایک وعدہ کرنا ہو گا اور وہ یہ کہ تم اس بات کا کسی سے بھی زکر نہیں کرو گے۔۔۔ یہ کہہ کر بھابھی بھائی کے پاس پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔ اور بھائی کے لن کو پکڑ کر اپنے سامنے کر دیا۔اور پھر اپنی زبان نکال کر کے نیم کھڑے لن پر پھیرنے لگی۔۔۔۔کچھ دیر بعد ۔وہ سارے لن پر زبان پھیرتی رہی اور پھر بھائی کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ لو جی صاف ہو گیا۔۔اب خوش ۔۔ تو بھائی نے ایک نظر اپنے لن کی طرف دیکھا ۔۔تو بھائی کا لن ان کے تھوک سے چمک رہا تھا ۔۔۔ اور خاص کر ان کے ٹوپے پر بھابھی کا بہت سا تھوک لگا ہوا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر بھائی ۔۔بھابھی سے کہنے لگے۔۔۔۔۔ ۔۔۔آیا جی آپ کی زبان نے یہاں پر تھوک لگا کر اسے مزید گندہ کر دیا ہے ۔۔۔۔ اس لیئے اب آپ اسے اپنے منہ میں لیکر ہونٹوں سے صاف کرو۔۔ اور بھائی کی بات سن کر بھابھی نے اپنا منہ کھولا ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر بھائی کا نیم کھڑا ۔۔۔ لن سارے کا سارا اپنے منہ میں لے گئیں اور ۔۔۔ ایک لمبا سا چوپا لگا کر کہنے لگیں۔۔۔۔لو منا ۔۔اب میں نے ۔ تمھاری ۔گندی جگہ پر لگا تھوک ۔لگا کر اسے ۔چوس کر بلکل صاف کر دیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔یہ دیکھ کر بھائی کسی بچے کی طرح مچلتے ہوئےبولے ۔۔۔۔۔۔ آیا جی ۔۔۔ آپ نے تو صرف میری سُو سُو والی جگہ ۔۔ صاف کی ہے ۔۔۔ جبکہ یہ جگہ (ٹٹوں کی طرف اشارہ کر کے ) تو ابھی بھی ویسی کی ویسی ہی گندی ہے۔۔۔ بھائی کی یہ بات سُن کر بھابھی نے بلکل آیا لوگوں کی طرح ۔بُرا سا ۔ منہ بنایا اور کہنے لگی۔۔ ۔۔۔ ادھر لا میرے باپ۔۔۔ اس کو بھی چاٹ کر صاف کر دیتی ہوں ۔۔۔اور پھر بھابھی نے بھائی کے لن کو پکڑ کر اوپر کی طرف اٹھایا اور ان کے بالز کو جو اس وقت نہانے کی وجہ سے کافی سُکڑے ہوئے تھے کو اپنے منہ کے قریب کیا ۔۔۔اور پھر اپنی زبان نکال کر ان کو بھی چاٹنے لگی۔۔۔۔۔
بھابھی کا بالز کو چاٹنے کی دیر تھی کہ میں نے دیکھا کہ بھائی کا لن جو اس وقت تک ہلکا سا کھڑا تھا۔۔۔ ایک دم سخت ہو کر اکڑ گیا ۔۔۔ اور پھر انہوں نے بھابھی کے منہ میں دیا ہوا ایک ٹٹے کو ۔۔۔ ہٹایا ۔۔ اور پھر ٹٹوں کی جگہ دوبارہ سے اپنے لن کو بھابھی کے کھلے ہوئے منہ میں دے دیا۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی نے بس ایک نظر اوپر بھائی کی طرف دیکھا اور پھر بھائی کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ لن چوسنے کے کچھ دیر بعد ۔۔۔ وہ اوپر اٹھی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ دیکھو منا ۔۔۔ صوفے پر بیٹھنے کی وجہ سے میری سُو سُو والی جگہ بھی کتنی گند ی ہو گئی ہے۔۔۔۔ اب تم اس کو چاٹ کر صاف کرو۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو صوفے کے اوپر کر کے لیا ۔۔۔اور اپنی گانڈ کو صوفے کے کنارے پر لے جا کر اپنی پھدی کو بھائی کے سامنے کر دیا۔۔۔ بھابھی کی پھدی کو اپنے سامنے دیکھ کر بھائی نیچے بیٹھا ۔۔۔اور عطیہ بھابھی کی چوت کا معائینہ کرنے لگا۔۔۔ اس وقت عطیہ بھابھی کی چوت سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔ اسے دیکھ کر بھائی بولا۔۔آیا جی ۔۔۔ آپ کی سُو سُو والی جگہ تو بہت گندی ہو رہی ہے اور اس میں سے آف وائیٹ سا پانی بھی نکل رہا ہے تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ منا ۔۔تم نے اس پانی کو ہی چاٹ کر صاف کرنا ہے ۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی نے اپنی زبان نکالی اور بھابھی کی چوت کو چاٹنے لگا۔۔۔چونکہ اس وقت بھائی کی میری طرف پشت تھی اس لیئے میں اس بات کو اندازہ نہ لگا سکی تھی کہ آیا بھائی اپنی زبان کو بھابھی کو چوت میں ڈال کر چاٹ رہا ہے ۔۔۔ یا صرف ان کی پھدی کے کناروں سے رسنے والا پانی ہی چاٹا جا رہا ہے ۔۔۔ اس وقت جب بھائی بھابھی کی چوت چاٹ رہا تھا ۔۔۔ تو میں نے بھابھی کی منہ سے نکلنے والی دلشچ کراہیں سنیں ۔۔۔کراہتے ہوئے وہ بڑی مست آواز میں بھابھی سے کہہ رہی تھی۔۔۔ شاباش منا۔۔۔ سارا ۔۔۔۔ پانی چاٹ جا۔۔۔ اور صاف کر دے میری پھدی کو۔۔۔۔ اُف۔۔ف۔ف۔ منا ۔۔۔ میری پھدی پر وائیپر کی طرح اپنی زبان کو چلاؤ۔۔اور میرے خیال میں بھائی نے اپنی زبان کو ۔۔ وائیپر کی طرح ۔بھابھی کی چوت پر پھیرنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔ بھابھی بڑی مست آواز میں کہنے لگی۔۔۔یس ۔یس ۔۔ایسے ۔۔۔ شاباش۔ایسے چاٹ نہ میری پھدی کو ۔۔۔۔۔ اور اس طرح بھائی کافی دیر تک بھابھی کی چوت کو چاٹتا رہا ۔۔۔۔ پھر ایک دم وہ اوپر اُٹھا ۔۔۔۔ اور بھابھی کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔ آیا ۔۔۔ جی ۔۔۔ آپ کی سُو سُو والی جگہ کو میں مزید نہیں صاف کر سکتا ۔۔۔تو بھابھی نے بھائی کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔وہ کیوں منا۔۔ تو بھائی نے ترنت ہی جواب دیا کہ وہ اس لیئے آیا جی کہ میں آپ کی سُو سپو والی ۔۔ جگہ کو جتنا ۔۔۔ چاٹ کر صاف کرتا ہوں ۔اندر سے اور ۔۔ زیادہ پانی نکلنا شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔ آیا جی چیک کرو آپ کی سُو سُو جگہ کہیں اندر سے لیک ہو رہی ہے۔۔
۔ تو بھائی کی بات سُن کر بھابھی کہنے لگی ۔۔۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ میری سُو سُو ۔۔۔ والی جگہ کہیں اندر سے لیک ہو رہی ہے پھر انہوں نے بڑے پیار سے بھائی کو مخاطب کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ مُنا ۔۔۔ ایک طریقے سے اس کی لیکیج بند ہو سکتی ہے تو بھائی کہنے لگا ۔۔۔وہ کیسے آیا جی؟ تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ وہ ایسے منا جی ۔۔۔ اگر تمھاری سُو سُو والی جگہ میری سُوسُو والی جگہ سے مل جائے تو شاید یہ لیکج بند ہو جائے ۔۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی حیران ہونے کی ایکٹنگ رکتے ہوئے کہنے لگے۔۔ آیا جی ۔سچ مُچ ۔۔میری سُو سُو والی جگہ جب آپ کی سُو سُو والی جگہ سے ملے گی تو اس طرح آپ کی لیکیج وال بند ہو جائے گی ؟؟ تو بھا بھی کہنے لگی۔۔۔ تم خود دیکھ لینا ۔۔۔ جب تمھاری سو سو والی جگہ میری سو سو والی جگہ سے ملے گی تو ۔۔ تھوڑا تمھارے اندر سے اور تھوڑا میرے اندر سے چپ چپا سا پانی خارج ہو گا اور پھر ۔اور پھر ہم دونوں کا یہ پانی مل کر میرے اندر ہونے سے آنے والے پانی کا اخراج بند کر دے گا ۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی ایک دم نیچے لیٹ گیا اور کہنے لگا ۔۔۔ تو ٹھیک ہے آیا جی آپ ۔۔ میرے سُو سُو والی جگہ پر اپنی سو سو والی جگہ رکھو۔۔۔۔ بھابھی ۔۔۔کہ اس وقت جس کی نظریں بھائی کے لن پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔ ایک دم صوفے سے نیچے اتری اور ۔۔۔ اپنی دونوں ٹانگوں کو بھائی کی دونوں رانوں کے درمیان لے گئی اور پھر ۔۔۔ کھڑے ہو کر اس نے اپنی دو انگلیوں کو اپنے منہ میں ڈالا اور ۔۔ بہت سا تھوک نکال کر بھائی کے لن پر مل دیا۔۔۔ جیسے ہی بھابھی نے بھائی کے لن پر اپنا تھوک ملا ۔۔۔ نیچے سے بھائی چلایا ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو آیا جی۔۔۔۔ میری سُو سوُ والی جگہ پر تھوک لگا کر پھر سے اسے گندہ کر رہی ہو؟ ابھی ہی میں نے صاف کر وایا تھا ۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔ابھی مجھے کرنے دو ۔۔ اس کے بعد میں پہلے کی طرح اپنے اس تھوک کر چاٹ کر صاف کر دوں گی ۔۔بھابھی کی بات سُن کر بھائی کہنے لگے۔۔۔ اگر پہلے کی طرح آپ چاٹ کر صاف کر دو گی تھو پھر ٹھیک ہے ۔۔آپ جتنا مرضی ہے تھوک لگا لو۔۔باھئی کی بات سُن کر ۔۔۔ بھابھی نے بھائی کے لن کا نشانہ لیکر کر ۔۔ نیچے بیٹھنا شروع کر دیا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بھائی کا پورا لن اپنی چوت میں گم کر دیا۔۔۔۔ اس کے بعد وہ بھائی کے لن پر بیٹھے بیٹھے آگے پیچھے ہو کر ہلنے لگی۔۔۔۔۔ ایسا کرتے ہوئے بھابھی کا منہ میری طرف تھا ۔۔جس کی وجہ سے مجھے بڑے ہی واضع طور پر بھائی کا لن بھابھی کی خوب صورت پھدی میں آتے جاتے ہوئے صاف دکھائی دے تھا ۔۔ ۔۔ کافی دیر گھسے مارنے کے بعد آخر بھابھی نے ایک چیخ ماری اور کہنے لگی۔۔۔ منا ۔۔۔۔ میں اپنے اندر تمھارا گرم ۔۔۔ پانی محسوس کر رہی ہوں ۔۔۔ کیا تم پانی چھوڑ رہے ہو ۔۔۔؟ تو بھائی کہنے لگی ۔۔۔آیا جی میرے اندر سے پانی نکل نکل کر آپ کے لیک ہونے والے سوراخ کی کے اندر گر رہا ہے پھر اچانک بھائی بھی چلائے اور کہنے لگے۔۔۔۔۔۔ آیا جی آیا جی۔۔۔۔ آپ بھی گرم گرم پانی ۔۔۔چھوڑ رہی ہو نا ۔۔۔ تو بھابھی چڑھتے ہوئے سانسوں میں بولی۔۔۔ ہاں منا۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی پانی چھوڑ رہی ہوں ۔۔۔۔۔پھر تیز تیز گھسے مارنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔۔وہ بھائی کے لن سے اُٹھی۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ اب لیکج بند ہو جائے گی۔۔۔۔تو بھائی اپنے لن کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آیا جی ۔۔۔ یہ جو میرے سُو سُو ۔۔والی جگہ کے آس پاس اتنا گندہ پانی لگا ہوا ہے ۔۔۔ اس کو چاٹ کر صاف کر و نا ۔۔۔ ؟ تو بھابھی کہنے لگی۔فکر نہ کرو منا ۔۔۔ میں تمہاری اس جگہ پر لگے ہوئے ایک ایک قطرے کو اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کر دوں گی ۔۔۔ اس کے بعد وہ بھائی سے یہ کہتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔ کہ اپنی جگہ سے ۔۔۔۔ ہلنا نہیں ۔ منا ۔۔۔ میں بس ابھی آئی۔۔۔ اور ۔۔اس کے ساتھ ہی بھابھی میرے سامنے چلتی ہوئی منظر سے غائب ہو گئی۔۔۔۔۔۔ ادھر میں بھائی کے منی سے لتھڑے ہوئے لن کو دیکھ کر اپنی چوت کجھا رہی تھی۔۔۔ اور ۔۔۔ اس بات کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ کہ کب بھابھی آئے اور بھائی کے لن پر لگی ساری منی کو چاٹ کر صاف کر دے۔۔۔ کیونکہ مجھے بھابھی کا لن پر لگی منی کو صاف کرنے کا طریقہ بہت پسند آیا تھا ۔وہ اپنی زبان سے بھائی کے لن کو پہلی بار میں ہی چاٹ کر کچھ اس طرح صاف کیا کرتی تھی کہ مجال ہے جو ان کی مشترکہ منی کا ایک مائیکرو ۔۔ قطرہ بھی بھائی کے لن پر لگا رہ جاتا تھا ۔۔۔اور ان کی چودائی کا واحد یہ سین تھا کہ جسے دیکھتے ہوئے میں بہت ہی گرم ہو جاتی تھی ۔۔۔اور اپنا دانہ مسلتے ہوئے کئی دفعہ چھوٹتی تھی ۔۔اور اس وقت میں اپنی چوت کو مسلتے ہوئے بھابھی کے انتظار میں تھی کہ کب وہ آئے اور بھائی کے لن کو چاٹے ۔۔۔ تو میری بھی بھی چوت میں رکا ہوا پانی باہر آئے۔۔اسی لیئے ۔۔۔ میں اپنی چوت کو مسلتے ہوئے اندر دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ کندھے پر ہاتھ پڑتے ہی میں نے اچھل کر پیچھے دیکھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ بھابھی ایک بڑی سی چادر میں خود کو لپیٹے عین میرے پیچھے کھڑی ہیں ۔۔ بھابھی کو اپنے سامنے دیکھتے میں حیرت سے کنگ ہو گئی اور اس سے قبل کہ میں ان سے کوئی بات کرتی ۔۔۔ انہوں نے میرے کندھے کو تھپ تھپا یا اور کہنے لگی۔۔۔۔ کیسا لگا ہمارا۔ شو۔!!!!!!!!!!!!۔۔۔ انہوں نے بس اتنا ہی کہا اور پھر بنا کچھ مزید بات کیئے واپس چلی گئی۔
جس وقت بھابھی مجھ سے یہ بات کر رہی تھی اس وقت شرم کے مارے میرا جی چاہ رہا تھا ۔۔۔ کہ ابھی زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔۔۔ ادھر ۔۔ بھابھی مجھ سے۔۔۔۔ یہ بات کر کے جس طرح اچانک آئی تھی ویسے ہی تیزی سے واپس چلی گئی۔۔ بھابھی کے جانے کے بعد ۔۔پہلے تو چند سکینڈ تک مجھے کچھ سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا اور میں کافی دیر تک حیران پریشان کھڑی رہی ۔۔ پھر اچانک مجھے ایک جھٹکا سا لگا ۔۔۔۔ اور کچھ ہوش آیا تو میں بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں سخت شرم محسوس کر رہی تھی اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں چلو بھر پانی میں ڈوب مروں ۔۔۔ ۔۔۔ پھر مجھے سوچ آئی کہ اگر بھابھی نے میری اس حرکت کے بارے میں اماں کو بتا دیا تو کیا ہو گا؟؟ ۔پھر اس کے ساتھ ہی میں سوچا کہ کون سا بھابھی نے مجھے موقعہ پر پکڑ ا ہے ۔۔۔اگر بھابھی نے اماں کے ساتھ یہ بات کی تو میں صاف منکر ہو جاؤں گی کہ میں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ہے بھابھی ایسے ہی مجھ پر الزام لگا رہی ہے۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا بھی خیال آیا کہ میری اماں بہت ۔۔۔ سمجھدار خاتون ہے ہو سکتا ہے کہ بھابھی کے سامنے وہ اس بات اک یقین نہ کرکے مجھے کچھ نہ کہے لیکن اس بات کا مجھے پکا یقین تھا کہ اماں نے نہ صرف یہ کہ بعد میں مجھ سے سخت انکوائیری کرنی ہے بلکہ ۔ بال کی کھال بھی اتار کر حقیت تک پہنچ ہی جانا ۔۔۔ ہے اور اگر اماں کو ساری حقیقت پتہ چل گئی تو۔۔۔۔اور یہ سوچ کر مجھے ایک جھرجھری سی آگئی۔۔ اور میں نے سوچا کہ اگر اماں کو سب حقیقت پتہ چل گئی تو اس نے مار مار کر میری ہڈی پسلی ایک کر دینی ہے ۔۔ کیونکہ بچپن میں اماں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنا مارتی تھی ۔۔۔۔ تو اس بات پر۔۔۔تو اماں نے میری جان ہی نکال دینی تھی۔۔۔ اور ۔۔ مجھے اچھی طرح سے پتہ تھا کہ مارتے وقت اماں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتی تھی۔۔۔ اس کے بعد میں نے یہ سوچا کہ میری اس حرکت سے بھابھی کیا سوچتی ہو گی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر بھابھی نے میری اس حرکت کے بارے میں بھائی کو بتا دیا کہ میں ۔۔۔ چھپ چھپ کر ان کا ۔۔۔ لائیو شو دیکھ رہی تھی تو ۔۔؟
۔۔ بھائی میرے بارے میں کیا سوچے گا کہ اس کی بہن کیسی ہے ؟کہ اپنے سگے بھائی۔۔۔۔۔۔ اور اس سے آگے میں نہ سوچ سکی۔۔۔ ۔۔۔ یہی بات سوچتے سوچتے میرے دل میں ایک یہ بات یہ بھی آئی کہ کیوں نہ میں گھر سے بھاگ جاؤں ۔۔۔ پھر یہ سوچ کر ۔۔۔۔ میں نے خود ہی اپنے اس فیصلے کو رد کر دیا کہ بھاگ کر میں جاؤں گی کہاں ؟ کیونکہ میں اچھی طرح سے جانتی تھی کہ میرے گھر والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اس لیئے کہیں نہ کہیں سے انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکالنا ہے ۔۔۔ اور ۔۔ جب یہ لوگ مجھے ڈھونڈ لیں گے تو پھر ۔۔۔؟ ۔۔۔۔یہ سوچ کر میں نے بھاگنے کا اپنا ارادہ ملتوی کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے آپ پر لعن طعن شروع کر دی ۔۔۔ کہ مجھے کیا ضرورت تھی ۔۔۔ وہاں جانے کی۔۔۔اور یہ سوچ کر مین خود کو کوسنے دینے لگی۔اور ساتھ ساتھ کمرے میں ادھر ادھر چکر بھی لگاتی جا رہی تھی۔۔۔ کیونکہ مجھے کسی بھی طور قرار نہ آ رہا تھا ۔۔۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا تھا ۔۔۔اور میں سخت پریشانی کے عالم میں مبتلا تھی خاص طور پر مجھے اس بات کی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ آخر بھابھی نے مجھے اس وقت کیوں نہیں کچھ کہا؟ ۔۔۔ اور بات بھی یہی تھی کہ اگر اسی وقت بھابھی مجھے ڈانٹ دیتی تو شاید میں سنبھل جاتی لیکن ۔۔۔۔ مجھے اس نے کچھ بھی نہ کہہ کر مجھے ایک ایسی شرمندگی میں مبتلا کر دیا تھا کہ ۔۔۔ میری سمجھ میں یہ بات نہ آ رہی تھی کہ اس کے بعد میں کس منہ سے بھابھی کا سامنا کروں گی؟؟؟؟؟اور کس طرح سے بھابھی کو اس بات کا یقین دلاؤں گی کہ آج کے بعد دوبارہ میں کبھی ایسی حرکت ہر گز نہ کروں گی۔۔۔
اسی طرح کی باتیں سوچتے سوچتے اور کمرے کے چکر لگاتے لگاتے کافی ٹائم گزر گیا۔۔۔ ۔۔پھر اچانک میں نے اپنے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک کی آواز سنی ۔۔۔ دستک کی آواز سنتے ہی ۔۔۔ میں بری طرح سے چونک گئی ۔۔۔اور ابھی میں یہ دیکھنے کے لیئے کہ یہ دستک کس نے دی ہے ۔۔۔۔ دروازے کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور بھابھی اندر داخل ہو گئی ۔۔۔ بھابھی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں نے اسے دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔۔۔ اور روتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ سوری بھابھی۔۔۔۔ ۔۔ مجھے روتا دیکھ کر بھابھی جلدی سے پیچھے مُڑی اور دروازے کو لاک کر دیا ۔۔۔ دروازہ لاک کر کے اس نے میری طرف دیکھا تو میں بھاگ کر اس کے پاس چلی گئی اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا ۔۔۔ میں روتی جاتی اور ساتھ ساتھ بھابھی سے یہ بھی کہتی جاتی تھی کہ آئی ایم سوری بھابھی۔۔۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی ۔۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ اور پھر روتے روتے میں نے اپنے سر کو بھابھی کے کندھے سے ہٹایا اور ۔۔۔ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔ بھابھی ۔ پلیز زززززززززز ۔۔۔۔ ۔۔میری اس حرکت کے بارے میں ۔ اماں کو یا فائق بھائی کو ہر گز نہ بتایئے گا ۔۔۔ اور ایک بار پھر ہچکیاں لے لے کر رونا شروع ہو گئی ۔۔۔۔ میری بات سُن کر بھابھی آگے بڑھی اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر کہنے لگی۔۔۔ میری گڑیا ۔۔۔ میری جان۔۔۔تم سے یہ بات کس نے کہہ دی ہے کہ میں تمھاری کوئی بھی بات اماں یا فائق کے ساتھ کرنے والی ہوں؟؟؟ ؟ اور اس کے ساتھ ہی پر بڑے ہی پیار سے وہ میری بیک پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔ بھابھی کے منہ سے یہ بات سُن کر میں تو حیران رہ گئی ۔۔۔ اور ایک دم پیچھے ہٹ کر بڑی بے یقینی سے بھابھی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ریلی۔۔۔؟ ؟ ۔۔۔ آآآآ۔آپ ۔۔۔آپ ٹھیک کہہ رہی ہو کہ ؟ ۔۔۔۔۔ تو بھابھی میری بات کاٹ کر کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں میری گڑیا ۔۔۔۔ میں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔۔۔ کہ فائق سے نہیں بلکہ کسی سے بھی تمھاری یہ بات نہیں کروں گی ۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر میں پھر سے آگے بڑھی اور ان کے گلے سے لگ کر بولی۔۔۔۔ آپ بہت گریٹ ہو بھابھی۔۔۔ اور ایک بار پھر رونے لگی۔۔۔ تو اس دفعہ بھابھی مجھے چُپ کراتے ہوئے بولی ۔۔ کہ ۔۔۔۔ارے ارے۔۔۔ یہ کیا تم نے رونے کا پرمٹ لے رکھا ہے ۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ چپ کر جا گڑیا رانی۔۔۔۔کیونکہ ۔ مجھے روتے ہوئے بچے زرا بھی اچھے نہیں لگتے ہیں ۔۔۔ تو میں نے روتے ہوئے کہا کہ بھابھی ۔۔۔ میں بہت گندی ہوں ۔۔ اور میں نے بڑی بے غیرتی کی ہے ۔۔۔۔
میری بات سُن کر ایک دم سے بھابھی نے مجھے اپنے سے الگ کیا پرک اس نے میرے ماتھے کو چوما اورپھر ہنس کر کہنے لگی۔۔۔ نہیں ۔۔۔میری گڑیا ۔۔۔ تم گندی نہیں ۔۔ہاں سیکسی ضرور ہو۔۔۔ ۔۔اور پھر شرارت بھرے انداز میری طرف دیکھ کرکہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا۔مس ہما۔۔۔ تو بھابھی کی بات سن کر میں نے اپنا سر نیچے کر لیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر بھابھی آگے بڑھی ۔۔اور میری ٹھوڑھی کے نیچے اپنی دو انگلیاں رکھیں اور میرا منہ اوپر کر طرف کر کے بولی ۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر جواب دو نا۔۔۔۔۔ تو شرم کے مارے میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔میری یہ حرکت دیکھ کر بھابھی ۔۔۔ ۔ ہنسی اور شرارت بھرے انداز میں کہنے لگی ۔۔۔ اوہو ۔۔اس وقت تو بڑی شرمیں آ رہیں ہیں اور آنکھوں پر ہاتھ رکھا جا رہا ہے لیکن ۔۔۔۔ جس وقت ہما جی میں نے آپ کو دیکھا تھا ۔۔۔تو کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اس وقت آپ کا ہاتھ کہاں تھا اور کیا کر رہا تھا ؟ ۔۔۔ ۔۔ بھابھی نے مجھ سے یہ بات کی اور پھر بڑے زور سے ہنس پڑی اور کہنے لگی ۔۔۔ ری لیکس یار ۔۔۔۔۔ اور ایک بار پھر سے اس نے میرا ماتھا چومنے کے لیئے مجھے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور میرے ماتھے کو اوپر تلے ۔چار پانچ دفعہ چوم لیا ۔۔اور پھر ۔۔۔۔ اس کے بعد مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ ۔۔۔ ماتھا چومتے چومتے کس وقت بھابھی کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر آئے اور ۔کب ہم دونو ں کے ہونٹ ۔۔ آپس میں مل گئے۔۔۔۔۔بھابھی نے جب اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھا تو ۔۔۔۔ ۔۔۔ پہلےتو کچھ دیر تک میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ ۔۔۔ بھابھی میرے ساتھ کیا حرکت کر رہی ہے ۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے مجھے سمجھ آنا شروع ہو گئی ۔۔۔ لیکن میں نے بھابھی کی اس حرکت پر کوئی مزاحمت نہیں کی ۔۔ اور بھابھی جو بھی کر رہی تھی اسے کرنے دیا۔۔اس وقت بھابھی نے میرے نچلا ہونٹ ہونٹ کو اپنے دونوں میں ہونٹوں لیکر دبایا ہوا تھا اور اسے چوس رہی تھی ۔۔۔اور سچی بات تو یہ ہے کہ بھابھی کے نرم ہونٹوں کا میرے نرم ہوٹوں سے ملاپ مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔اور میں آہستہ آہستہ میں شاک سے باہر آتی جا رہی تھی۔اور شاید بھابھی بھی یہی چاہتی تھی کہ میں صدمے سے باہر آ جاؤں۔۔اسی لیئے وہ مسلسل میرے ہونٹوں کو چوسے جا رہی تھی ۔اور پھر۔۔ دھیرے دھیرے ۔بھابھی کی نرم۔۔۔ گرم کسنگ سے سے تھوڑی ہی دیر بعد میرے اندر گرمی کی لہریں سر اُٹھانے لگیں ۔اور دھیرے دھیرے میں مست ہونے لگی ۔ اور۔پھر۔۔ عطیہ بھابھی کا ۔۔۔ یوں میرا ہونٹ چوسنا مجھے بہت اچھا لگنے لگا۔۔۔اور ۔۔۔ پھر میں نے بھی بھابھی کواپنا ردِ عمل دینا شروع کر دیا۔۔۔ میرا رسپانس دیکھ کر بھابھی نے ایک لحظے کے لیئے میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ نکالے اور میری طرف دیکھتے ہوئے میری زہنی کیفیت کا اندازہ لگانے لگی۔۔ ۔۔۔
کچھ دیر تک میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھےے بغور دیکھنے کے بعد اس نے دوبارہ سے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور ۔۔۔پھر ۔۔ اگلے ہی لمحے میرے ہونٹ چوستے چوستے بھابھی نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔اور میری زبان کے گرد اپنی زبان کو لپیٹ دیا۔۔۔ شروع سے ہی مجھے بھابھی کے منہ سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی۔۔لیکن شاید صدمے کی وجہ سے میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی تھی لیکن ۔ جب عطیہ بھابھی نے اپنی زبان کو میری زبان سے لپیٹ کر ۔۔۔اسے اچھی طرح چوسا ۔۔۔اور پھر اچانک ہی انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ سے واپس کھینچ لیا اور ۔۔پھر ۔ اپنی لمبی زبان کو منہ سے باہر نکال کر مجھے دکھاتے ہوئے ۔۔۔ بڑی ہی مخمور ۔۔۔ نظروں سے میری طرف دیکھا اور مست لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ ہما ۔۔ڈارلنگ۔۔۔ زرا غور سے میری زبان کی طرف دیکھو۔۔۔ میں نے ابھی اسی زبان سے تمھارے بھائی کے لن پر لگی اپنی اور اس کی ساری منی کو چاٹ کر صاف کیا ہے۔۔۔ پھر کہنے لگی زرا اس کو چوس کر دیکھو۔۔۔۔ زرا ۔۔ اس کی مہک تو لے کر دیکھو۔۔۔ اس میں سے تم کو۔۔۔۔ہم دونوں کی مشترکہ منی کی مہک آئی گی ۔۔۔ ذائقہ آئے گا۔ٹیسٹ آئے گا ۔۔ اور پھر سے وہ مجھ پر ٹوٹ پڑی ۔۔۔ ادھر بھابھی کی یہ بات سن کر کہ اس کی زبان پر ابھی بھی ان دونوں کی منی کا ذائقہ لگا ہوا ہے ۔۔۔ میں بے حد پُر جوش ہو چکی تھی ۔۔اور میرا جی چاہ رہا تھا ۔۔۔ کہ میں بھابھی کی زبان کو کھا جاؤں ۔۔اسی لیئے جیسے ہی بھابھی اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈالنے کے لیئے آگے بڑھی تو میں نے بڑے ہی گرمی اور اشتیاق کے ساتھ اس کی زبان کو اپنی زبان کی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔ اور میں بھابھی کی ٹیسٹی زبان کو پاگلوں کی طرح چوسنے لگی۔۔۔۔ادھر بھابھی نے اپنی زبان کو چسواتے ہوئے۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں کو آگے بڑھایا اور میرے دونوں دودھ پکڑ لیئے۔۔۔۔ اور ان کو زورزور سے دبانے لگی۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد بھابھی نے اچانک ہی اپنی زبان کو واپس کھینچ کر میرے منہ سے باہر نکالا اور کہنے لگی۔۔۔۔بس بھی کر۔۔۔ہما ۔۔۔ میری زبان کو کھانا ہے کیا؟ تو میں نے پرُ ہوس نظروں سے بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ پروگرام تو یہی ہے۔۔۔ تو عطیہ بھابھی ہنس کر کہنے لگی۔۔۔ پروگرام کی بچی۔۔۔۔ تم نے میری زبان چوس کر وہاں سے تو ساری منی ختم کر دی ۔۔۔ لیکن تمھاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ اب منی وہاں سے کوچ کر کے (اپنی پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اب یہاں آ گئی ہے ۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں نے بنا کوئی جواب دیئے اس کی شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ تو بھابھی گھبرانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ارے ۔۔۔ارے۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔ تو میں ۔۔۔۔۔ نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔ جس طرح میں نے آپ کی زبان پر لگی منی کو چٹ کیا ہے ۔۔۔۔ ویسے ہی نیچے بھی آئی ہوئی منی کو چاٹ کر صاف کر دوں گی ۔۔۔۔ اور بھابھی کا آزار بند کھول دیا۔۔۔ اسی دوارن بھابھی نے ہاتھ بڑھا کر میری شلوار بھی اتار دی۔۔۔
جیسے ہی میں نے اپنی شلوار کو اتارا تو ۔۔۔بھابھی بڑے غور سے میرے گوشت سے بھری چوت کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھی اور میری پھدی پر اپنی دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی رکھی اور کر کہنے لگی۔۔۔ اُف۔۔۔ اتنی حسین چوت۔۔۔ یقین کرو ۔۔۔ کوئی خوش قسمت ہی اس کو مارے گا ۔۔۔پھر انہوں نے بڑے ہی معنی خیز لہجے میں میری طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔ ابھی تک کس کس نے نے ماری ہے؟ تو میں نے شرما کر کہا ۔۔ کسی نے بھی نہیں ۔۔۔کہ یہ ابھی تک اَن ٹچ ہے تو وہ کہنے لگی ۔۔ نہیں ایسے نہ کہو بلکہ ایسے کہو کہ تمھاری چوت ابھی تک ان ٹچ تھی لیکن ۔۔۔اب میرے ہاتھ لگانے سے ان ٹچ نہیں رہی ۔۔۔ پھر ایک دم وہ سنجیدہ ہو گئی اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔ایک بات کہوں ہما تو میں نے کہا ۔۔جی کہیئے ۔۔تو وہ بڑے ہی سیریس لہجے میں بولی ہما ۔۔شادی تک اسے اَ ن ٹچ ہی رہنے دینا ۔۔۔
۔۔۔۔ اور پھر سے میری پھولی ہو چوت پر اپنی انگلی پھیرنے لگی۔۔۔ میری پھدی پر انگلی پھیرتے پھیرتے جیسے ہی اس کی نگاہ میری چوت کے دانے پر پڑی جو اس وقت شہوت کی وجہ سے کافی پھولا ہوا تھا اسے دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی اور دانے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ تو سیکسی لڑکی ۔۔ میری طرح سے تم نے بھی خوب فنگرنگ کی ہے ۔۔۔ اور پھر وہ نیچے جھکی اور میرے دانے کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔ اور اسے چوسنے لگی۔۔۔ میرے دانے پر بھابھی کے نرم ہونٹوں کا لگنا تھا کہ۔۔۔ میرے مزے کے مارے میرا برا حال ہو گیا اور میں نے جھک کر بھابھی کو مموں اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر بھابھی نے اپنے منہ سے میری چوت اک دانہ نکالا اور سیکسی آواز میں کہنے لگی۔۔۔ دودھ اچھے لگتے ہیں؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔تو وہ کہنے لگی چوسو گی؟ تو میں نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ ہاں چوسوں گی ۔۔۔۔میری بات سن کر بھابھی اوپر اُٹھی اور اس نے اپنی قمیض اتار دی اور مجھے بھی اشارے سے ایسا کرنے کو کہا اور پھر کچھ دیر بعد ہم دونوں الف ننگی ہو گئیں ۔۔ بھابھی میرے اور میں بھابی کے خوب صورت جسم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔ پھر بھابھی آگے بڑھی اپنے ممے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ لے بے بی میرا سارا دھودھ پی لو۔۔۔ اور میں نے بھابھی کے ممےچوسنے شروع کر دئے اور بھابھی جو کہ دورانِ سیکس گندی باتیں کرنے کی شوقین تھی کہنے لگی ۔۔۔ گشتی میرے ممے ایسے چوسو جیسے تم ۔۔۔گرمویں میں آم چوستی ہو۔۔۔ یا پھر شادی کے بعد ۔ نواز کا لن چوسو گی ۔۔۔ نواز کے لن کا سن کر مجھ میں جوش سا بھر گیا ۔۔۔۔ اور میں بڑی ہی بے تابی سے بھابھی کے ممے چوسنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔۔۔اب بس۔۔۔۔بھی کر ۔۔۔ اور اپنے مموں سے میرے منہ ہٹا کر بولی۔۔۔۔ لن کے نام پر ۔۔۔ بڑا جوش دکھایا ہے تو نے۔۔۔۔ تو میں ہنس پڑی اور بولی۔۔۔ کیا کروں بھابھی لن چیز ہی ایسی ہے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ویسے بائی دا وے کبھی کسی کا لن چوسا بھی ہے؟ تو میں نے صاف جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ نہیں بھابھی میں نے آج کسی کا لن نہیں چوسا۔۔۔ تو بھابھی میری طرف دیکھ کر مست لہجے میں کہنے لگی ۔تو۔۔پھر تم نے لائف میں کیا کیا ہے ؟ ۔۔۔ پھر وہ اپنی چوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگی ۔۔ لن نہ سہی چلو آج میری چوت کو چوس کر مزہ لے لو۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ مجھے پکڑ کر پلنگ کی طرف لے گئی اور پھر مجھے پلنگ پر لٹا کر کہنے لگی ۔۔۔ تم نے کبھی سکس نائین کے بارے میں سنا ہے ؟تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔چچ ۔۔چچ۔چچ۔ بے چاری سیکسی لڑکی جس کو یہ بھی نہیں معلوم کہ سکس نائین کیا ہوتا ہے ۔۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ سکس نائین بیک وقت ایک دوسرے کا لن پھدی چوسنے کو کہتے ہیں ۔۔ تو میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں بھابھی سے کہا ۔میں سمجھی نہیں ۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ چل میں تجھے اس کا عملی مظاہرہ کر کے بتاتی ہوں کہ سکس نائین کیا ہوتا ہے ۔ پھر انہوں نے مجھے پلنگ پر لیٹنے کو کہا اور خود میرے اوپر آ گئی ۔۔اس وقت بھابھی کا منہ میری ٹانگوں کی طرف اور پھدی میرے منہ کی طرف تھی ۔۔۔۔پر بھابھی نے اپنے منہ کو پیچھے کی طرف گھما کر کہا ۔۔۔ ۔۔۔ ہما ۔۔۔ اوپر سے میں تمھاری پھدی چوسوں گی جبکہ اسی وقت نیچے سے تم نے میری چوت کو چاٹنا ہے ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ یہ ہوتا ہے سکس نائین۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے اپنی ٹانگیں کھلی کرنے کو کہا اور پھر میری پھدی پر اپنا منہ رکھ دیا اور ۔۔۔ اپنی زبان سے میرے دانے کو چاٹنے لگی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میں نے اپنے منہ کو بستر سے تھوڑا اوپر اُٹھایا ۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنی زبان کو عطیہ بھابھی کی چوت میں ڈال دیا۔۔۔ اس وقت عطیہ بھابھی کی چوت لیس دار پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ اور میں نے اپنی زبان بڑھا کر اس کی چوت کا سارا لیس دار پانی چاٹنے لگی۔۔جبکہ عین اسی وقت بھابھی میری چوت کے دانے کو چاٹ رہی تھی ۔اور بھابھی اس مہارت سے اپنی زبان کو میرے دانے پر پھیر رہی تھی کہ۔۔۔جلد ہی میں بے چین سی ہونے لگی ۔۔ اور میرے اندر حدت بڑھنے لگی ۔۔۔اور جوں جوں یہ حدت بڑھتی جاتی میں نیچے سے میں اپنی چوت کو اوپر اُٹھا اُٹھا کر بھابھی کے منہ سے جوڑنے لگی۔۔ تجربہ کار بھابھی فوراً ہی ۔۔۔ میری تکلیف کو سمجھ گئی چنانچہ اس نے جلدی سے میرے دانے پر رکھا اپنا منہ ہٹایا اور پھر ۔۔۔۔اپنی زبان کو میری چوت کے لبوں پر لے گئی اور بڑی تیزی سے میری چوت چاٹنا شروع ہو گئی۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ایک انگلی سے کو میرے دانے پر بھی رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔عطیہ بھابھی کے اس عمل کے کچھ ہی دیر بعد ۔میں ایک دم تڑپی اور ۔ میری چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا۔۔۔ جو کہ بھابھی نے سارے کا سارا چاٹ لیا۔۔۔
اور پھر اس نے اپنے منہ کو میری طرف گھما کر کہا ۔۔ تم تو بہت جلد چھوٹ گئی ہو ۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ میرا خیال ہے ہمارے شو نے تم کو بڑا گرم کر دیا تھا ۔۔۔تبھی اتنی جلدی چھوٹ گئی ہو ۔۔۔اور اس کے ساتھ وہ پھر سے میر ے دانے پر اپنی زبان کو پھیرنے لگی ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔ پانی خارج ہونے کے بعد میں نے اپنی زبان کو اس کی چوت میں داخل کیا اور بھابھی کی طرح میں نے بھی اپنی ایک انگلی کو بھابھی کی چوت کے دانے پر پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔اور مختلف طریقوں سے بھابھی کی چوت چاٹتی گئی اور ۔اس طرح کچھ ہی دیر بعد عطیہ بھابھی نے بھی تڑپنا شروع کر دیا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی تڑپ کو نظرانداز کر کے ان کی ۔چو ت کو چوستی گئی۔۔۔ اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ بھابھی کا جسم تھرایا اور ۔وہ ایک دم تڑپ کر بولی۔۔ہائے میری چوت ۔۔ اُف ہما ۔۔ میری چوت ۔۔۔سے پانی نکلنے لگا ہے۔پھر بولی ۔۔۔ہما۔۔۔ہمم ما۔۔۔۔ میری چوت پر لگا پانی ایک قطرہ بھی نہ چھوڑنا۔۔۔ اور اس کےساتھ ہی انہوں نے میری پھدی پر رکھا اپنا منہ ہٹایا ۔اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی پھدی کو میرے منہ پر رکھ دیا ۔۔۔اور ۔۔۔ اسے رگڑنے لگی۔۔۔۔ واؤؤؤؤ۔۔عطیہ بھابھی کی چوت کی ساری گرمی۔۔۔۔ پانی میں ڈھل رہی تھی۔۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ میرے منہ پر پھدی رگڑنے کی بھابھی کی رفتار تیز ہو گئی ۔۔۔تیزززززز ۔۔۔اور تیزززززززززز ۔۔اور ۔۔ پھر کچھ ہی دیر بعد۔۔۔۔ بھابھی کی چوت سے لیس دار پانی نکل نکل کر میرے منہ میں جانے لگا۔۔۔ اور بھابھی جھٹکے کھا کھا کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ گشتی تیزی سے زبان چلا۔۔۔۔۔۔۔ اور میری پھدی کو شانت کر دے۔۔اور اپنی پھدی کو اور بھی تیزی سے میرے منہ پر رگڑتی رہی۔۔۔اور نیچے سے اس کی چوت کا لیس دار پانی نکلتا رہا۔جو اس کی چوت کے لبوں سے ہوتا ہوا ۔۔آبشار کی طرح سیدھا میرے منہ میں گرتا رہا ۔۔۔۔۔ پھر ۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ خود بھابھی بھی شانت ہو گئی اور گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ ۔مزہ آ گیا یار۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی میرے برابر لیٹ گئی اور ۔۔۔ اپنے سانس درست کرنے لگی۔
تو میں نے بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئےکہا کہ ۔۔سچ بھابھی ۔۔۔ آپ بہت سیکسی ہو ۔آپ کے سیکس سے میں بہت شانت ہو گئی ہوں۔اتنی دیر میں بھابھی اپنے سانس بحال کر چکی تھی اور میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔ ابھی کہاں جانی۔۔۔ تمہیں شانت کرنے کا ابھی ایک اور سٹیپ رہتا ہے بھابھی نے یہ کہا اور وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرے اوپر آ گئ۔۔۔۔
اور پھر اس نے میری ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسالیں ۔لیکن اس سے پہلے اس نے کافی سارا تھوک لگا کر میری اور اپنی چوت کے دانے کو تھوک لگا کر تر کر لیا تھا ۔۔۔اس کے بعد اس نے ۔۔۔ اپنی پھدی کو میری پھدی پر رکھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر اپنے پھولے ہوئے دانے کو میری پھدی کے پھولے ہوئے دانے پر رکھا ۔۔اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ اب دیکھنا کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ اور پھر وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے دانے کو میرے دانے پر رگڑنے لگی ۔۔۔ اُف۔۔۔ عطیہ بھابھی اتنی تیزی سے اپنے دانے کو میرے دانے پر رگڑ رہی تھی ۔۔۔ کہ ہماری دونوں کی پھدیوں سے ایک بس چنگاریاں نہیں نکلیں ۔۔۔ باقی ۔۔اس نے کوئی کسر نہیں رہنے دی۔۔۔۔ بھابھی کی رگڑائی کے کچھ ہی دیر بعد میری تو حالت غیر ہو گئی اور میں بھی جوش میں آ کر نیچے سے اس کی رگڑائی کا بھر پور جواب دینے لگی۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد ہم دنوں کی پھدیوں نے آگ جیسا پانی اگلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور ۔۔ جیسے جیسے ہماری پھدیوں سے گرم پانی بہہ بہہ کر باہر کی طرف آنا شروع ہوا ۔۔۔ ویسے ویسے ہم دونوں اندر سے ٹھنڈی ہونا شروع وہ گئیں تھیں۔۔۔۔ اور پھر ہوتے ہوتے ۔۔۔ ہم دونوں ۔۔۔ بلکل ہی ٹھنڈی ہو گئیں۔۔۔۔اور اتنی زیادہ مشقت کی وجہ سے۔کم ازکم میں تو بہت زیادہ تھک گئی تھی خود بھابھی کی آنکھیں بھی نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔۔ تبھی بھابھی نے مجھے ایک گرم سی کس دی اور بولی۔۔۔تھینک یو ہما۔۔۔اب میں جا کر سوؤں گی ۔۔اور پھر وہ کپڑے پہن کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
عطیہ بھابھی سے میرے تعلقات پہلے ہی بہت اچھے تھےاب اس خوبصورت حادثے کے بعد ہمارے تعلقات میں مزید گہرائی آگئی تھی ۔۔ اور ہم نند بھابھی سے زیادہ ۔۔۔ ایک دوست کی اچھی بلکہ بہت دوست بن گئیں تھیں ۔۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس حادثے کے بعد میں نے پھر کبھی عطیہ بھابھی اور بھائی کا سیکس شو نہیں دیکھا ۔۔ حالانکہ بھابھی نے بہت دفعہ کہا بھی لیکن پتہ نہیں کیوں خاص کر ان دونوں کا شو دیکھنے کو میرا دل نہیں کیا۔۔۔ جبکہ اس کے علاوہ کسی اور کا شو میں نے کبھی بھی مس نہیں کیا تھا ۔۔۔ اس طرح کافی ٹائم اور گزر گیا۔۔۔ اور اس دوران میری دوست نواز سے باقاعدہ منگنی ہو گئی تھی ۔۔ چونکہ منگنی کے موقعہ پر ایسی کوئی خاص بات نہ ہوئی تھی جو کہ آپ لوگوں کو سنانے کے لائق ہو اس لیئے میں اس قصے کو چھوڑتی ہوں ۔۔ ہاں یاد آیا منگنی کے کچھ دنوں بعد میں اور بھابھی گپیاں لگا رہی تھیں اور باتوں باتوں میں نے جب نواز کے بارے میں بھابھی سے سوال کیا تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بولی ۔۔۔ ہما بے شک نواز تم سے بہت محبت کرتا ہے اور بے شک وہ میرا فرسٹ کزن بھی ہے لیکن میری ساری ہمدردی تمھارے ساتھ ہے۔۔۔اسی لیئے میں تم کو بھابھی ہونے کی حثیت سے نہیں بلکہ ایک دوست اور لور ہونے کی حثیت سے بتا رہی ہوں کہ اس کے باوجود نواز تم سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔ لیکن سہاگ رات اگر تمہارا خون نہ نکلا تو ۔۔۔ بڑی مشکل ہو جائے گی ۔۔۔ تو میں آنکھ مار کر کہا بھابھی جی آپ کا نکلا تھا ۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نکلتا تو تب نا جب تمھارے بھائی کی وہ پہلی بار ہوتی ۔۔۔تو میں نے حیران ہو کر اس سے کا کیا مطلب بھابھی؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ میری گڑیا ۔۔ ہم لوگوں نے شادی سے پہلے ہی جسمانی تعلقات قائم کر لیئے تھے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔ لیکن اس کیس مںی تمھارے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے پھر بولی میری بات یاد رکھناہما ۔۔کہ شادی سے پہلے ۔اگرتم زیادہ تنگ ہوئی یا کوئی لڑکا زیادہ اچھا دوست بن گیا یا اسے دیکھ کر تم پر سیکس بھوت سوار ہو گیا ۔۔۔ تو میری جان ۔۔ شادی سے پہلے کبھی بھی اس کو آگے سے نہیں کرنے دینا ۔۔تو میں نے شرارت سے کہا ۔۔۔ تو پھر بھابھی میں اس کو آگے سے نہ دوں تو کیا دوں۔۔۔ تو وہ اسی سیریس لہجے میں بولی ۔۔۔ یہ مزاق نہیں ہے ہما۔۔۔ ۔۔۔۔ عورت کے پردہء بکارت کے بارے میں یہ لوگ بڑے سخت واقعہ ہوئے ہیں ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ تو اس لیئے میری گڑیا ۔۔۔ آگے کے علاوہ تمھارے پاس دو اور سوراخ بھی ہیں۔۔۔ تم وہاں سے سیکس کر سکتی ہو سمجھ تو میں گئی تھی لیکن میں نے ویسے ہی ان کو چھیڑنے کی غرض سے کہا۔۔۔۔ وہ کون کون سے دو سوراخ ہیں بھابھی جان !!! زرا وضاحت تو کر دیں ۔۔تو وہ کہنے لگی۔بنو مت ۔۔۔اب تم اتنی بھولی بھی نہیں ہو جتنی شکل سے نظر آتی ہے ۔۔۔ ۔اس کے ساتھ ہی وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔
ہر چند کہ ہما ڈارلنگ تمہیں سب معلوم ہے لیکن پھر بھی میں تمھاری اطلاع کے لیئے بتائے دیتی ہوں کہ ان دو میں سے ایک سوراخ تمھاری شاندار گانڈ کے بیچ میں واقعہ ہے جہاں سے تم اور کام کرنے کے علاوہ کوئی سا بھی لن لے سکتی ہو اور دوسرا سوراخ تمھارے ہونٹوں کے بیچ میں ہے جہاں پر تم کھانے پینے کے علاوہ ۔۔۔ کسی کا لن بھی یا پھدی چوس سکتی ہو ۔۔۔ اور یہ دونوں سوارخ وہ ہیں کہ جن سے تم مزہ لے بھی سکتی ہو بلکہ اگلے کو مزہ دے بھی سکتی ہو۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس ٹاپک پر وہ کچھ اور روشنی ڈالتیں اماں ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں۔۔۔ نند بھابھی کے بیچ کیا باتیں ہو رہیں ہیں ؟ اماں کو دیکھ کر بھابھی زرا نہ گھبرائی اور کہنے لگی کچھ خاص نہیں بس ویسے ہی فیشن کی باتیں کر رہیں تھیں کہ کس قدر جلد فیشن بدل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر اماں ہمارے ساتھ بیٹھتے ہو ئے کہنے لگیں۔۔ بات تو تم ٹھیک کہتی ہو ۔۔۔ عطیہ بیٹی۔۔۔اور ۔۔۔ پھر اس کے بعد اماں اور بھابھی فیشن کے ٹاپک پر گفتگو کرنے لیں۔۔۔ اس طرح کچھ مزید وقت گزر گیا ۔۔ یہ میرے فائینل ائیر کی بات ہے کہ اس دن میں نے کالج سے چھٹی کی تھی۔۔۔اور ۔گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ صبع میرے کالج میں چھٹی ہے اس لیئے مجھے کوئی نہ اُٹھائے اور پھر رات کو ایسی ڈٹ کر سوئی کہ اگلے دن بارہ بجے میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ دن کے بارہ بج رہے تھے ۔۔۔ بستر سے اٹھ کر میں نے ایک انگڑائی لی اور واش روم چلی گئی واپسی پر مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔۔۔ چنانچہ اپنے کمرے سے میں سیدھا کچن میں چلی گئی اور ابھی میں کچن سے کچھ دور ہی تھی کہ میرے نتھنوں میں اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبو آنے لگی ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں کچن میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مختلف چولہوں پر تین چار قسم کی ہانڈیاں چڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ ان چولہوں کے پاس بھابھی کھڑی تھی ۔۔۔ بھابھی کو دیکھ کر میں نے ان سے کہا واہ۔۔۔ یہ اتنے ڈھیر سارے کھانے کس خوشی میں بن رہے ہیں ؟ کیا ہمارے گھر کسی کی دعوت ہے؟ تو بھابھی کہنے لگی ارے نہیں یار ۔۔۔ دعوت شاوت کوئی نہیں ۔۔ ہاں بات یہ ہے کہ بہاولپور سے عادل خان آرہا ہے ۔۔۔ تو میں نے بھابھی سے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے یہ بتاؤ مہاراج کس ٹائم پدھاریں گے۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ چار پانچ بجے تک پہنچ جائے گا پھر کہنے لگی۔۔۔ عادل کو دفتر واپسی پر فائق لیتا آئے گا۔۔۔ ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔ اصل میں عادل خان میٹرک کے پیپر دے کر آج کل فری تھا اور گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہا تھا اس ۔۔۔ ٹائم پاس کرنے اور لاہور دیکھنے کی غرض سے ابو نے اسے لاہور میرے پاس بھیج دیا ہے ۔۔ بھابھی کی بات سُن کر میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ ضرور دکھاؤ جی لاہور ۔۔۔ کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ۔۔۔ جینے لاہور نہیں ویکھیا ۔۔۔۔ اور جمیا ہی نئیں ۔( جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ) ۔۔ اور پھر اپنا ناشتہ لیکر ڈائینگ ٹیبل پر آ گئی۔۔۔
شام پانچ کی بجائے چھ بجے فائق بھائی ایک دبلے پتلے سےلڑکے کو لیئے گھر میں داخل ہوئے۔یہ عادل خان تھا عطیہ بھابھی کا چھوٹا بھائی۔۔عادل خان کو دیکھ کر ہم لوگ تو حیران ہی رہ گئے تھے کیونکہ آخری مرتبہ جب اس کو دیکھا گیا تھا تو وہ ایک بہت چھوٹا سا بچہ تھا ۔اور اس وقت اس کا قد بھی اتنا زیادہ نہ نکلا تھا لیکن اب یہ کہ نہ صرف اس نے قد بھی نکال لیا تھا بلکہ اب تو۔ اس کی مسیں بھیگ گئیں تھیں اور اس کے سانولے رنگ میں کافی کشش آ گئی تھی۔۔۔ فائق اور عادل کے گھر داخل ہو کر ملنے کے بعد بھابھی عادل سے پوچھنے لگی کہ لیٹ کیوں ہو گئے تھے تو عادل کی بجائے فائق بھائی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مت پوچھ یار ۔۔۔ بس پورے دو گھنٹے لیٹ آئی تھی میں تو انتظار کر کر کے پھاوا ہو گیا تھا اس پر بھابھی نے تشویش سے عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ خیریت ۔۔۔ بس کیوں لیٹ ہوئی تھی؟ تو عادل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ باجی بس راستے میں خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ لوگ لیٹ ہو گئے تھے۔۔۔ اور یوں عادل ہمارے گھر رہنا شروع ہو گیا ۔۔۔ عادل ایک سانولے رنگ کا پر کشش سا لڑکا تھا اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں قرار نہیں تھا اور پہلے دن سے میں نے اس کی آنکھوں میں ۔۔۔ ایک خاص قسم کی جنسی بھوک کو محسوس کر لیا تھا ۔ جب بھی موقعہ ملتا وہ خاص کر میری چھاتیوں پر اپنی نظریں گاڑ دیتا تھا اور میرے دیکھنے پر وہ اپنی نگاہیں ادھر ادھر کر لیتا تھا میں بظاہر تو اس بات سے لاعلم تھی ۔۔ تھی لیکن اس کا یوں اپنی چھاتیوں کو گھورنے سے میں اندر ہی اندر دیکھنے سے لطف اندوز ہوتی تھی۔۔پھر ایک دن کی بات ہے کہ اس دن کوئی سرکاری چھٹی تھی اس لیئے حسبِ معمول میں دن چڑھے تک سوتی رہی اور جب آنکھ کھلی تو واش روم جانے سے پہلے ایک نظر برآمدے کی طرف دیکھا تو ۔۔دیکھا کہ عظمیٰ باجی آئی ہوئی تھی ۔۔ اور میں سارے کام بھول کر کھڑکی سے لگ کر کھڑی ہو گئی کیونکہ بظاہر تو یہ دونوں خواتین (اماں اور عظمیٰ) بڑی ہی رکھ رکھاؤ اور ادب و آداب والی تھیں ۔۔۔۔لیکن میں یہ بات اچھی طرح سے جانتی تھی کہ تنہائی میں یہ دونوں ۔۔ بلکل بازاری اور رنڈی عورتوں کی گفتگو کرتی تھی۔۔۔ اور ان کی آپس میں ہونے والی یہ بے شرمی کی باتیں مجھے بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔ اسی لیئے جب بھی عظمیٰ باجی ہمارے گھر آتی تو میں کوشش کرتی تھی کہ چھپ کر ان دونو ں کی باتیں سنوں ۔۔ ۔ اس وقت بھی میں کھڑی سے لگی ان دونوں کی باتیں سننے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس وقت وہ دونوں سامنے والی شیخ صاحب کی بیگم کی برائیاں کر رہی تھیں ۔۔
اماں اور عظمیٰ باجی سے تھوڑے فاصلے پر عادل خان اور بھابھی بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ بھابھی چاپائی پر بیٹھی کوئی سبزی چھیل رہی تھی جبکہ عادل ان کے سامنے کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔ پھر شاید بھابھی نے عادل کو کسی کام کا بولا تو وہ کرسی سے اُٹھ کر اندر کچن کی طرف چلا گیا اور واپسی پر ایک بڑی سی پرات لے آیا ۔۔ اور بھابھی کے پاس رکھ دی۔۔۔۔۔ عادل کو کچن سے واپسی پر دیکھ کر عظمیٰ باجی نے اماں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور عادل کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔۔۔۔ یہ چکنا کون ہے؟ تو اماں بولی ۔۔۔ ہولی بول مرنیئے۔۔۔(آہستہ بولو) پھر سرگوشی میں کہنے لگی۔۔۔۔ یہ عطیہ کا بھائی ہے اور میٹرک کا امتحان دیکر ہمارے ہاں کچھ دن رہنے آیا ہے۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ اسی دوران بھابھی سبزی وغیرہ چھیل کر کچن کی طرف چلی گئی تھی جبکہ عادل خان ابھی تک کرسی پر بیٹھا ۔۔۔ چائے پی رہا تھا ۔۔۔۔اسی لمحے ۔۔ میں نے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھا جو عادل خان کی طرف یوں دیکھ رہی تھی کہ جیسے چھوٹا بچہ بیکری میں جا کر پیسٹری کو دیکھتا ہے۔۔۔ وہ کچھ دیرتک عادل کو گھورتی رہی ۔۔پھر اس کے بعد وہ اماں سے مخاطب ہو کر بڑے ہی ذُو معنی الفاظ میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ دیکھنے میں تو عطیہ کا بھائی ایک دم چکنا ہے۔۔۔۔ باقی کی کیا رپورٹ ہے ؟ ۔۔۔ عظمیٰ کی بات سُن کر اماں نے بھی عادل خان کی طرف دیکھا اور پھر بولی ۔۔۔ ہوں ۔۔چکنا تو واقعہ ہی بڑا ہے ۔۔۔ پھر۔عظمیٰ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔اصل میں اسے آئے ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں ۔۔ ۔۔۔اس لیئے۔۔۔ پھر انہوں نے عظمیٰ کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور سر ہلا کر کہنے لگیں ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔ ابھی پتہ چل جاتا ہے اور سرگوشی میں بولیں ۔۔اپنی چھاتی کو نمایاں کرو۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمیٰ نے جلدی سے اپنی قمیض کا ایک اور بٹن کھول دیا ۔۔ عظمیٰ باجی کا گلا ویسے بھی بہت کھلا ہوتا تھا۔۔۔ لیکن اب جو انہوں نے اپنا ایک بٹن مزید کھولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔ ان کی چھاتیوں کی طرف جاتی ہوئی لیکر کچھ اور گہرائی تک دکھائی دینے لگی اس کے بعد انہوں نے اپنی قمیض کو تھوڑا اور سیٹ کیا تو اس سے عظمیٰ باجی کی چھاتیاں اس حد تک نمایاں ہو گئیں کہ اب بس ۔۔۔ ان کی چھاتیوں کے نپلز ہی ڈھکے رہ گئے تھے۔۔۔
اپنی چھاتیوں کو آخری حد تک نمایاں کرنے کے بعد انہوں نے اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔اور بولیں یہ ٹھیک ہے تو اماں ۔۔ عظمیٰ باجی کی چھاتیوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ تمہاری چھاتیوں کو دیکھ کر کہیں بچہ بے ہوش ہی نہ ہو جائے اور پھر کہنے لگی تیار ہو جاؤ میں اسے بلانے لگی ہوں اور پھر انہوں نے وہیں سے آواز لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ عادل بیٹا ۔۔۔ زرا بھاگ کر فریج سے ایک گلاس پانی تو لانا۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عادل خان نے اپنی چائے کی پیالی وہیں رکھی اور اُٹھ کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔اور تھوڑی ہی دیر بعد واپس آیا ۔۔۔ تو اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا ۔۔جو اس نے آ کر اماں کو پکڑانے لگا تو وہ بولیں ۔۔ارے مجھے نہیں بیٹا اپنی آنٹی کو دو۔۔۔ اور عادل نے عظمیٰ باجی کی طرف پانی کا گلاس بڑھا دیا۔۔۔۔۔ عظمیٰ باجی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پانی کا گلاس پکڑنے سے پہلے ۔۔ اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ نیلو باجی آج واقعہ ہی گرمی ہے یا ۔۔۔۔ مجھے لگ ایسا لگ رہا ہے ؟ اور اس کے ساتھ ہی اس ے بڑے طریقے سے اپنا دوپٹہ کو اپنی چھاتیوں سے ہٹا دیا۔۔۔۔ ادھر اماں نے ایک نظر کچن کی طرف دیکھا ۔۔ اور بولیں ۔۔۔ ہاں عظمیٰ آج واقعہ ہی بڑی گرمی ہے ۔۔۔۔۔ ادھر عادل نے جیسے ہی گلاس پکڑانے کے لیئے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھا ۔۔۔تو اس کی نظر ۔۔عظمیٰ باجی کی چھاتیوں پر پڑ گئی ۔۔۔جو اس وقت صاف چھپتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں والے محاورے کے عین مطابق ہو چکی تھی ۔۔۔اتنی شفاف اور زبردست چھاتیں دیکھ کر عادل خان عظمیٰ باجی کو پانی کا گلاس پکڑانا بھول گیا۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کی ادھ ننگی چھاتیوں کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔ اتنے میں عظمیٰ باجی نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا اور غٹا غٹ پی کر واپس گلاس کو اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔اور بولیں شکریہ بھائی۔۔۔ عادل خان عظمیٰ کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے ہی واپسی کے لیئے مُڑا تو اماں کہنے لگی بیٹا اگر برا نہ مانو تو ایک گلاس میرے لیئے بھی لے آؤ گے؟ اماں کی فرمائیش سنتے ہی عادل تیزی سے واپس مُڑا اور کچن کی طرف چلا گیا۔۔۔اس کے جاتے ہی عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں نیلو باجی آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے ۔۔۔ تو اماں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم نے اس کی آنکھوں کی طرف نہیں دیکھا۔۔۔ جو مجھ سے یہ بات پوچھ رہی ہو؟ تو عظمیٰ باجی اپنی بائیں آنکھ میچ کر کہنے لگیں۔۔۔ نہیں یار میرا سارا دھیان اس کی نیکر کے بیچ میں تھا ۔۔۔۔۔ اور ہنس پڑیں ۔اور کہنے لگیں اسی لیئے تو میں نے تم سے یہ بات پوچھی ہے ۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ارے بابا گھوڑا گھاس۔۔۔ اور لوڑا ۔۔۔چوت نہیں کھائے گا تو کیا کرے گا ؟ ۔۔۔ پھر بولیں ۔مجھے تو ۔ یہ لڑکا ۔۔۔ بڑا ہی سیکسی لگتا ہے تو عظمیٰ باجی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ تو پھر کیا خیال ہے تمھارا ؟ تو اماں بولیں ۔۔ وہی خیال ہے جو ایک سیکسی عورت کا ایک سیکسی مرد کے بارے ۔۔۔۔ یا پیاسی چوت کا ۔۔۔ لن کے بارے میں ہوتا ہے اتنے میں عادل پانی لیکر کر آتا ہوا دھائی دیا۔۔۔ تو اسے دیکھ کر اماں عظمیٰ باجی سے مخاطب ہو کر بولی۔ ۔۔تم دوپٹہ واپس لے لو۔۔کہ۔ اب چھاتیاں دکھانے کی میری باری ہے۔۔۔ اور اماں کی بات سُن کر عظمیٰ باجی نے جلدی سے اپنی چھاتیوں کو ڈھانپ دیا۔۔۔ اتنے میں عادل خان اماں کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ اس نے اماں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے چوری چوری عظمیٰ باجی کی چھاتیوں کی طرف نگاہ ڈالی تو۔۔۔۔۔۔ اسے وہاں اپنے مطلب کی چیز نظر نہ آئی ۔۔۔ اور وہ تھوڑا مایوس سا ہو گیا ۔۔ یہ دیکھ اماں کہنے لگیں۔۔۔۔ عادل بیٹا ۔۔۔ پوچھنا یاد نہیں رہا ۔۔۔تمھارے پیپر کیسے ہوئے تھے؟ تو عادل اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ بہت اچھے خالہ ۔۔۔ اور اسی دوران اس کی نظریں اماں کی بھاری چھاتیوں پر پڑ گئیں۔۔۔ عظمیٰ کےمقابلے میں اماں کی چھاتیوں نہ صرف یہ کہ بہت بھاری تھیں ۔۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔ان کی اُٹھان بھی بڑی زبردست تھی۔۔۔ اس لیئے اماں کی چھاتیوں کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے تو عادل خان ۔۔۔ حیران ہی رہ گیا ۔۔۔اور اماں کی چھاتیوں کو دیکھتے ہوئے۔۔۔ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔۔۔۔ اتنی دیر میں اماں نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیا اور گھونٹ گھنونٹ پینے لگیں اور عادل کو مخاطب کر کے بولیں ۔۔۔ آپ ان کو جانتے ہو؟ تو عادل نے چوری سے اماں کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔ نہ نہیں ۔۔۔خالہ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ان کا نام عظمیٰ ہے اور یہ ہماری ہمسائی ہیں اور پھر انہوں نے پانی پیتے پیتے ۔۔اچانک گلاس عادل کی طرف بڑھایا ۔۔اور کہنے لگیں ۔۔ ۔۔۔ایک منٹ کے لیئے اسے پکڑو پلیزز۔۔ ۔۔۔اور ایسے ظاہر کیا کہ جیسے ان کو کہیں شدید خارش ہو رہی ہے ۔۔۔یہ دیکھ کر عظمیٰ باجی نے حیرانگی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیا ہوا باجی ؟ تو اماں اپنی چھاتیوں کے اندر ہاتھ لے جاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔۔پتہ نہیں صبع سے مجھے یہاں بہت زیادہ خراش ہو رہی ہے ۔۔اماں کی بات سن کر عظمیٰ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ نیلو باجی آپ کے یہاں کسی کیڑے نے کاٹا ہے ۔۔۔ تو اماں نے خارش کے بہانے اپنے ایک نپل کی ہلکی سے جھلک کراتے ہوئے بظاہر عظمیٰ سے کہنے لگیں ۔۔۔ دیکھ نا یار ۔۔۔ میری جلد کس قدر سرخ ہو رہی ہے۔۔۔اور اپنا آدھا نپل بظاہر عظمیٰ لیکن عادل کو دکھایا ۔۔۔ اور پھر انہوں نے اچانک ایسے ری ایکٹ کیا کہ جیسے انہیں یاد ہی نہیں رہا تھا کہ عادل بھی وہاں کھڑا ہے ۔۔۔اور جلدی سے اپنی چھاتیوں کو دوپٹے سے ڈھک کر بولی سوری بیٹا ۔۔۔اور اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیکر ایک سانس میں ختم کر لیا۔۔۔۔۔ اور اسے دیکر بولیں ۔۔۔۔ جیتے رہو ۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔۔
جیسے ہی عادل گلاس لیکر واپس مُڑا۔۔۔تو اچانک میری نگاہ اس کی نیکر پر پڑ گئی ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ اس وقت اس کی نیکر تنبو بنی ہوئی تھی۔۔۔اس کے جاتے ہی عظمیٰ نے اماں کی طرف دیکھا اور بولیں ۔۔ آپ بڑی استاد ہو نیلو باجی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ کھتے یار۔۔۔۔ لیکن عظمیٰ نے ان کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا ۔اماں کی طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ کب تک؟ تو اماں بولیں۔۔۔تھوڑا صبر کر لو۔۔۔۔۔ پہلے مجھے تو اس چکنے کو چکھنے دے ۔۔۔۔پھر اس کے بعد اماں اور عظمیٰ باجی بے چارے عادل کے بارے مین گفتگو کرنے لگیں ۔۔۔۔اسی دورا ن مجھے بڑے زور کا پیشاب لگ گیا تھا ۔۔۔ اس لیئے میں واش روم میں چلی گئی ۔۔۔۔ اور پیشاب کرتے ہوئے ۔۔۔ بھی ۔۔۔ اماں اور عظمیٰ کے بارے میں سوچتی رہی کہ دیکھو ۔۔۔۔۔ یہ دونوں کب اس سے اپنی پھدیاں مرواتی ہیں ۔۔۔۔اور پھر میں نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ میں ان دونوں کا لزت سے بھر پور یہ شو ضرور دیکھوں گی۔۔۔ اور آنے والے وقت کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
لیکن اس سے پہلے احتیاطً میں نے ایک دفعہ پھر سے اماں کے کمرے کا اس حسا ب سے جائزہ لیا کہ اماں کا شو کس اینگل سے اچھا نظر آئے گا ۔۔۔ لیکن کافی تلاش کے بعد بھی مجھے ایسی کوئی جگہ نہ ملی کہ جہاں سے میرا کام ہو سکتا تھا آخر میں نے اس کام کو وقت کی مناسبت سے کرنے کا فیصلہ کیا اور کمرے سے باہر آگئی۔۔۔اور اس کے بعد میں نے اماں کو نوٹ کرنا شروع کر دیا اور میں نے دیکھا کہ اماں بڑے ہی محتاط انداز میں عادل کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں ۔موقعہ بہ موقعہ وہ عادل کو اپنی چھاتیوں کا بھر پور نظارہ کرواتی تھی ۔۔۔ اور کبھی کھبی ۔۔۔ اپنی موٹی گانڈ کا بھی درشن کروا دیتی تھی۔۔۔۔۔ اماں کے یہ انداز دیکھ دیکھ کر دھیرے دھیرے عادل بھی اماں میں دل چپسی لینا شروع ہو گیا تھا۔۔لیکن وہ اماں کے مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے ۔۔۔ بہت جھجھک رہا تھا ۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود ۔۔۔۔چوری چوری ۔۔۔ ہوس بھری نظروں سے اماں کی چھاتیوں اور موٹی گانڈ کو دیکھا کرتا تھا ۔۔۔پورے گھر میں ہی وہ واحد فرد تھی کہ جو ان دونوں کے درمیان کم ہوتے ہوئے فاصلوں کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ میں ان دونوں کی یہ ساری باتیں نوٹ کر رہی تھی لیکن میں نے اس بات کا زکر ۔۔۔۔ عطیہ بھابھی سے نہیں کیا تھا اور نہ ہی اپنی اماں کے بارے میں ان سے کوئی ایسی بات کرنے کا ارادہ بھی تھا۔۔۔۔
ایک دن کا زکر ہے کہ کالج سے واپسی پر جب میں عطیہ بھابھی کے کمرے میں پہنچی تو وہ بڑی تیار ہو رہی تھی تو میں نے سمجھا کہ وہ عادل کے ساتھ کہیں گھومنے جا رہی ہے کیونکہ جب سے عادل آیا تھا وہ دونوں بہن بھائی فائق بھائی کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے دن کہیں نہ کہیں گھومنے چلے جاتے تھے اسی لیئے بھابھی کو تیاری کرتے دیکھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آج کہاں کی تیاری ہے؟ تو وہ پرا سا منہ بنا کر کہنے لگی۔۔۔ نہیں یار آج ہم عادل کے ساتھ نہیں بلکہ ایک بڑی ہی بورنگ جگہ پر جا رہے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ لاہور میں ایسی کون سی جگہ ہے جو آپ کو اتنی بور لگتی ہے کہ اس کے لیئے تیار ہوتے ہوئے آپ کا منہ بنا ہوا ہے۔۔۔ میری بات سن کر بھابھی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ تم غلط سمجھی ہو ۔۔۔ میں عادل کے ساتھ نہیں بلکہ میں اور فائق کے ساتھ ہوٹل میں اس کی سالانہ میٹنگ اٹینڈ کرنے جا رہی ہوں تو میں نے اس سے کہا کہ سالانہ میٹنگ میں آپ کا کیا کام؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ یار پہلے ایک جلسہ ہو گا جہاں پر ان کا کھڑوس باس کمپنی کی کارکردگی کے بارے میں بتائے گا۔ کہ اس سال کمپنی نے کتنا منافع کمایا وغیرہ وغیرہ ۔۔ پھر اس کے بعد تقریرں ہوں گی اور آکر میں ۔۔۔ کھانا ۔۔۔تو میں نے بھابھی سے کہ اس میں اتنا منہ بنانے کی کیا بات ہے تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔۔ تم نہیں سمجھو گی ۔۔۔ اور جلدی جلدی تیار ہونے لگی ۔۔۔ بھابھی کو تیار ہوتے دیکھ کر میں ان کے کمرے سے باہر نکلنے لگی اور جیسے ہی میں واپسی کے لیئے مُڑی تو اچانک بھابھی کہنے لگی۔۔۔ ہما ۔۔یار ہو سکتا ہے ہم کو واپسی پر کچھ زیادہ ہی دیر ہو جائے تو تم ایسا کرنا کہ عادل کو ٹائم پر کھانا وغیرہ دے دینا ۔۔۔ کہ اس کو کسی اور سے کھانا مانگتے ہوئے شرم آتی ہے اس پر میں نے بھابھی سے پوچھا کہ بھابھی عادل آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جا رہا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہیں یار ۔۔۔ ایسی بورنگ جگہ پر وہ جا کر کیا کرے گا پھر بولی ویسا میں نے اس سے پوچھا تو تھا لیکن اس نے صاف انکار کر دیا ہے کہ وہ نہیں جا رہا ۔۔۔۔
بھابھی کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے پتہ نہیں کیوں میرے زہن میں ایک ہی خیال آ رہا تھا ۔۔۔ کہ بھائی اور بھابھی کسی پارٹی میں جا رہے تھے۔۔۔ فیض بھائی کی بیگم ڈلیوری کے سلسلہ میں اپنے میکے گئی ہوئی تھی ۔۔۔ فیض بھائی آفس سے آ تے ہوئے پہلے اپنے سسرال جاتے تھے اور اس کے بعد رات گئے سونے کے لیئے گھر آتے تھے۔۔۔رہ گئے ابا ۔۔۔تو ان کی ٹائمنگ کا کوئی پتہ نہیں ویسے بھی وہ اکثر لیٹ ہی آتے تھے ۔۔۔اور ۔۔۔اب گھر میں صرف میں اماں اور ۔۔۔اور عادل بچتے ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔۔اور اگر میں بھی کہیں چلی جاؤں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔۔ تو آج ۔۔۔۔۔ پارٹی ٹائم ہے ۔۔ یہ سوچ کر میرا تن بدن جوش سے بھر گیا اور جلدی سے میں اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اور کپڑےوغیرہ تبدیل کر کے دوپہر کے کھانے کے لیئے ڈائینگ ٹیبل پر پہنچ گئی۔۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے سے باہر نکلی تو عطیہ بھابھی فائق بھائی کے ساتھ جا رہی تھی میں نے ان کو جاتے دیکھا اور کہا ۔۔۔۔ آپ لوگ بہت جلدی نہیں جا رہے تو بھابھی کی بجائے بھائی کہنے لگے ۔۔ اصل میں پہلے ہم نے اپنے ایک اور کولیگ کے گھر جانا ہے پھر وہاں سے ہم لوگ اکھٹے ہو کر ہوٹل جائیں گے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور پھر ۔۔۔ عادل کو تلاش کرنے لگی۔۔۔ لیکن وہ کہیں نہ ملا ۔۔۔ پھر مجھے یاد آیا اور میں اماں کے کمرے کی طرف جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سامنے سے مجھے عادل خان آتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔ وہ بڑی جلدی میں لگ رہا تھا ۔۔۔تو میں نے اس کو روک کر پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو ۔۔؟ وہ کہنے لگا۔۔۔وہ باجی۔۔۔ خالہ نے بلب لانے کو کہا ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ خالہ کے کمرے کا زیرو واٹ کا بلب فیوز ہو گیا ہے اس لیئے وہ لینے جا رہا ہوں۔۔ عادل نے مجھے یہ کہا اور باہر جانے لگا جیسے ہی عادل واپسی کے لیئے مُڑا تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ عادل کھانا کب کھاؤ گے ۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔باجی نے کھانا کھلا دیا تھا۔۔۔ تو پروگرام کے مطابق میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ مجھے بڑے زور کی نیند آرہی ہے اس لیئے میں اپنے کمرے میں سونے جا رہی ہوں ۔۔۔ اگر بھوک لگے تو مجھے اٹھا دینا ۔۔۔اور اپنےکمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی عادل میری نظروں سے اوجھل ہوا۔۔ میں ایک دم واپس ہوئی ۔۔۔۔۔ اور دبے پاؤں چلتی ہوئی اماں کے کمرے کی طرف جانے لگی ۔۔۔اماں کے کمرے کے پاس پہنچ رک میں رک گئی اور بڑے ہی محتاط انداز میں ۔۔۔ اور جھانک کر اندر دیکھا تو۔۔۔ اماں کا کمرہ خالی تھا۔یہ دیکھ کر میں تھوڑی پریشان ہو گئی۔۔۔ لیکن پھر بھی اپنی تسلی کے لیئے میں دبے پاؤں چلتی ہوئ اماں کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔ اندر جاتے ہی تو مجھے واش روم سے پانی گرنے کی آوازیں آنے لگی ۔۔۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اندر اماں نہا رہیں تھیں ۔۔۔ اس لیئے میں دبے پاؤں چلتی ہوئی کمرے کی کھڑکی طرف گئی ۔۔۔ اور پردہ پیچھے کر کے کھڑکی کا شیشہ بھی کھو ل دیا۔۔۔۔
اسی اثنا میں واش روم سے پانی کے گرنے کی آواز بند ہو گئی اور میں نے آخری دفعہ کھڑکی کی طرف دیکھا اور اسے اپنی مرضی کے مطابق پا کر ۔۔۔۔۔ میں کمرے سے باہر ا ٓگئی۔۔۔اور ایک مناسب جگہ پر چھپ کر عادل کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ کوئی دس منٹ کے انتظار کے بعد عادل ہاتھ میں زیرو کا بلب لیئے مجھے اماں کے کمرے کی طرف آتا دکھائی دیا۔۔۔۔ اور میں چھپ کر اسے آتا دیکھنے لگی۔۔۔ کچھ دیر بعد اماں کے کمرے میں تھا ۔۔۔ جیسے ہی عادل اماں کے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ میں بھی اپنی پناہ گاہ سے نکلی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی اماں کی کھڑکی کے قریب پہنچ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔اور پھر بڑے ہی محتاط انداز میں اندر کی سن گن لیتے ہوئے اوپر کو اُٹھنے لگی ۔۔۔ اور اوپر اٹھتے وقت میں نے اماں کی آواز سنی وہ عادل سے مخاطب وہ کر کہہ رہی تھیں ۔۔۔ یہ ہما کہیں نظر نہیں آ رہی؟؟؟ تو عادل بولا۔۔ جی وہ سو رہی ہیں ۔۔۔تو اماں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم کو کیسے معلوم؟ اس پر عادل نے میری اس کے بیچ ہونے والی ساری گفتگو اماں کے گوش گزار کر دی۔۔۔۔ادھر دھیرے دھیرے میں بھی کھڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو چکی تھی۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ اس وقت اماں ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی ۔۔۔ جس وقت عادل نے اپنی بات ختم کی تو اماں نے مُڑ کر عادل پیچھے کی طرف دیکھا تو واضع طور پر میں نے اماں کے چہرےپر گہرے اطمینان کی جھلک دیکھی تھی ۔۔۔ عظمیٰ ٹھیک کہتی تھی اماں بڑی استاد تھی ۔۔۔کس طرح سرسری سا لہجہ بنا کر اس نے میرے بارے میں عادل سے معلومات لے لی تھی پھر اماں ڈریسنگ سے ہٹی اور عادل کی طر ف مُڑ گئی۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اماں نے سفید رنگ کی ایک کھلے گلے والی تنگ سی قمیض پہنی ہوئی تھی۔اور اس قمیض کا گلا اتنا کھلا تھا کہ مجھے دور سے دیکھنے پر ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی اماں کی بھاری چھاتیاں قمیض پھاڑ کر باہر نکل آئیں گی تو قریب کھڑے عادل کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔۔اوپر سے نہانے کے بعد شاید اماں نے تولیئے سے اپنے گیلے بدن کو صاف نہیں کیا تھا جبھی تو اماں کی پتلی اور تنگ قمیض گیلی ہو کر اماں کے خوب صورت جسم کے ساتھ چپکی ہو ئی تھی۔۔۔جس سے اماں کا سارا جسم نظر آ رہا تھا ۔۔۔ اور میں نے عادل کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔ لیکن اماں سے نظر بچا کر گاہے۔ان کے جسم کو بھی دیکھ لیتا تھا ۔۔۔ اور بار بار کبھی ایک اور کبھی دوسری ٹانگ پر وزن ڈال کر کھڑا ہو رہا تھا ۔۔۔تنگ قمیض کے نیچے اماں نے اس نے ایک ٹائٹ سا تنگ سا پجامہ پہنا ہوا تھا ۔اور مجھے پورا یقین تھا کہ اس سے اماں کے اس ٹائیٹ پاجامے سے گانڈ کی ایک ایک پھاڑی صاف نظر ا ٓرہی تھی۔۔ ۔۔۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ عادل کو اچھی طرح سے اپنے جسم کا نظارہ کرانے کے بعد اماں نے ایک سٹول پکڑا اور عادل سے مخاطب وہ کر کہنے لگی۔۔ بلب کو اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھو اتنی دیر میں میں ہولڈر سے پرنے بلب کو اتارتی ہوں ۔۔اور پھر اماں نے عادل کی طرف پشت کی اور پاس پڑے سٹول کو اٹھانے کے بہانے کافی زیادہ نیچے کو جھکی اور ۔۔۔ اپنی گانڈ کو نمایاں کر کے ۔ بولی ۔۔۔۔ یاد آیا ۔۔۔ عادل زرا دکھانا کہ تم کون سا بلب لائے ہو ۔۔۔ اور جیسے ہی عادل بلب پکڑ کر اماں کے قریب آیا تو ایک دم سے جھکی ہو ئی اماں ایک دم سے اوپر اُٹی ۔۔۔اور اماں کے یوں اوپر اُٹھنے سے ۔۔۔ اماں کی نرم گانڈ عادل کے لن سے ٹکرا گئی ۔۔ یہ دیکھ کر اماں جلدی سے بولی۔۔۔او سوری بیٹا۔۔۔ اور اس کے ہاتھ سے بلب لے کر دیکھنے لگی ۔۔اور بولی۔۔۔ بلب تو تم ٹھیک ہی لائے ہو۔۔۔ اور انہوں نے عادل کو بلب واپس کرتے ہوئے ۔۔۔سٹول اٹھایا ۔۔۔۔ جسے لیکر وہ ۔۔۔۔ کھڑکی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔ چونکہ کھڑکی پر جالی لگی ہوئی تھی اور اندر ٹیوب لائٹ بھی جل رہی تھی اس لیئے کمرے کے اندر سے باہر دیکھے جانے کا کوئی احتمال نہ تھا۔اور ویسے بھی اس وقت اماں کی ساری توجہ عادل کو گھیرنے میں لگی ہوئی تھی ۔ جو بے چارہ ۔۔ سخت ڈرا ہوا تھا ۔۔ اندر سے اس کا دل کر بھی رہا تھا لیکن اماں کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے وہ پہل کرنے سے ڈر بھی رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ جب میں نے اماں کو کھڑکی کی طرف آتے دیکھا تو میں جلدی سے پیچھے کو ہٹ گئی ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی جھری سے کمرے کے اندر کا نظارہ دیکھنے لگی ۔ ادھر اماں عادل کو تڑپا کر مزہ لے رہی تھی۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی ۔۔
۔۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر اماں نے سٹول کو بلب کے نیچے رکھا اور اس کے اوپر چڑھ کر عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ زرا سٹول کو پکڑ کر رکھنا ۔اور سٹول کے اوپر چڑھ گئی ۔ اماں کی بات سُن کر عادل نے اپنے ہاتھ میں پکڑا زیرو کا بلب سامنے پلنگ پر رکھا اور سٹول کو پکڑ لیا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔اپنی چھاتیوں کا تو اماں نے عادل کو نیچے ہی نظارہ کروا دیا تھا ۔۔۔ اور اب نظارہ کرانے کی باری ا ماں کی موٹی گانڈ کی بلاشبہ دیکھنے میں اماں کی گانڈ بڑی ہی دل کش تھی ادھر جیسے ہی عادل نے اماں کے سٹول کو پکر کر اوپر کی طرف دیکھا تو ۔۔ اس کی نظر سیدھی اماں کی بڑی سی گانڈ پر پڑی۔۔۔جو اس کی تنگ اور باریک پجامے سے اس قدر واضع نظر آرہی تھی کہ اس پر نظر پڑتے ہی عادل کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔ اور اماں کی گانڈ کو دیکھتے ہوئے وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا رہا۔۔ ادھر اماں پرانے بلب کو اتارنے کے بہانے ۔۔عادل کو ہر زاویہ سے اپنی موٹی گانڈ کے درشن کروا رہی تھی۔۔۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی ۔۔عادل کی نظریں اماں کی دونوں ٹانگوں کے سنگم پر لگی ہوئیں تھیں۔پھر میری نگاہ عادل کے نیچے پڑی تو میں نے دیکھا کہ سامنے سے اس کی نیکر پر بہت زیادہ اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔اور عادل کی ایک نگاہ اماں کی گانڈ کی طرف اور دوسری اپنے لن کی طرف جا رہی تھی ۔۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہاتھا ۔۔۔اس وقت جزبات سے اس کا سانولہ چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔اور چہرے پر پسینے کے قطرے آئے ہوئے تھے جو مجھے یہاں سے بھی نظر آ رہے تھے۔۔ تھے۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لن کو بٹھانے کی بھی بہت کوشش کر رہا تھا۔۔۔ جتنا وہ لن کو نیچے بٹھانے کو کوشش کرتا ۔۔اتنا ہی اس کا لن ۔۔۔ تناؤ میں آ جاتا تھا ۔۔۔ اور وہ پریشانی سے کبھی اماں کو اور کبھی۔۔۔ اپنے لن کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔۔۔ ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات ڈر بھی رہا تھا کہ ۔ کہ کہیں اس کے لن کے ابھار پر اماں کی نظر نہ پڑ جائے ۔۔۔۔دوسری طرف اماں نے پرانا بلب اتارا اور بولی عادل ۔۔۔ سٹول کو پکا پکڑنا کہ میں نیچے آنے والی ہوں ۔۔۔ اماں کا نیچےآنے کا سن کر عادل نے جلدی سے اپنے لن کو پکڑا اور اسے اپنی نیکر کے نیفے میں اڑس لیا۔۔۔
اتنی دیر میں اماں نیچے آگئی اور گہری نظروں سے عادل کی طرف دیکھ بولی۔۔۔ یہ تم کو اتنا پسینہ کیوں آیا ہوا ہے؟ تو عادل ۔۔۔ گھبرا کر بولا۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ ۔خالہ ۔۔۔۔ آج گرمی بہت ہے نا۔۔۔ تو اماں ذومعنی الفاظ میں کہنے لگی ۔۔۔ ہاں عادل بیٹا گرمی تو بہت ہے اور عادل کی طرف دیکھتے ہوئے بلب کو نیچے گرا دیا ۔۔۔اور کہنے لگی سوری اور عادل کے سامنے ہی نیچے جھک گئی۔۔۔ اُف اماں کے نیچے جھکنے سے ایک بار پر میرے ساتھ ساتھ عادل کی نظر بھی اماں کی بھاری چھاتیوں پر پڑی ۔۔۔۔۔ اور اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔۔۔اور بے بسی سے اماں کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔ ادھر اماں نے پرانے بلب کو فرش سے اُٹھایا اور پھر عادل سے کہنے لگی ۔۔۔۔ بیٹا میں سٹول کو پکڑتی ہوں ۔۔۔۔تم نئے بلب کو لگا دو۔۔۔ اماں کی بات سُن عادل نے بلب کو پلنگ سے اٹھایا اور سٹول پر چڑھ گیا۔۔۔ جبکہ اماں نے سٹول پر اپنا ایک ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ عادل کی طرف دیکھتے ہوئے اسے ۔۔۔ خواہ مخواہ ہی ہدایت دیتے ہوئے بولی۔۔۔عادل بلب کو دائیں ہاتھ میں پکڑو ۔ورنہ یہ گر جائے گا ۔اور اماں کی بات سن کر عادل نے بلب کو بائیں سے دائیں ہاتھ میں منتقل کیا ۔ اس کے ساتھ ہی اماں نے بہانے سے اپنا منہ ۔۔۔۔ عادل کے پیٹ کےساتھ لگا لیا ۔۔۔اور ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ادھر عادل ہولڈر میں بلب کو لگانے کی کوشش کر رہا تھا اور ادھر اماں کا ۔۔۔ چہرہ کھسکتا ہوا ۔۔۔ عادل کے نیچے کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔ اماں کی یہ حرکت دیکھ عادل نے ایک نظر نیچے دیکھا ۔۔۔اور پھر بلب لگانے لگا ۔۔۔۔ اور جیسے ہی عادل نے ہولڈر میں بلب پھنسانے کے لیئے اپنا ہاتھ اوپر کیا ۔۔۔۔۔۔عین اسی لمحے ۔ اماں نے نے اپنا منہ عادل کے پیٹ سے ہٹایا ۔۔۔۔۔اور۔۔۔ اور ۔۔ اپنے دونوں ہاتھ عادل کی رانوں پر رکھے اور ۔۔۔ عادل سے باتیں کرتے کرتے اچانک ہی اماں کا ہاتھ پھسلا ۔۔۔۔۔۔اوررررررررررررررررررررر۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اچانک ہی عادل خان کی نیکر پھسل کر اس کے گھٹوں تک آ گئی ۔۔۔ ۔۔۔۔ نیکر نیچے ہوتے ہی ۔۔۔۔ اماں نے عادل ۔۔۔۔۔اور عادل نے اماں کی طرف دیکھا۔۔۔۔ اوررررررررررررررررررررررررررررررررررررر۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی۔۔۔۔باقی۔۔ آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment